Maktaba Wahhabi

27 - 108
جاتے۔دراصل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اہل کوفہ ان کو مسلسل کوفہ آنے کی دعوت دے رہے ہیں،یقیناً وہاں جانا ہی مفید رہے گا۔ یہ بھی تمام تاریخوں میں آتا ہے کہ ابھی آپ راستے ہی میں تھے کہ آپ کو خبر پہنچی کہ کوفے میں آپ کے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل شہید کردئیے گئے جن کو آپ نے کوفے کے حالات معلوم کرنے کےلیے ہی بھیجا تھا۔اس المناک خبر سے آپ کا اہل کوفہ پر سے اعتماد متزلزل ہوگیا اور واپسی کا عزم ظاہر کیا، لیکن حضرت مسلم کے بھائیوں نے یہ کہہ کر واپس ہونے سے انکار کردیا کہ ہم تو اپنے بھائی مسلم کا بدلہ لیں گے یا خود بھی مر جائیں گے اس پر حضرت حسین نے فرمایا:’’تمہارے بغیر میں بھی جی کر کیا کروں گا؟‘‘ ((فھم ان یرجع وکان معہ اخوۃ مسلم بن عقیل فقالواواللّٰه لا نرجع حتی نصیب بثارنا او نقتل))(تاریخ الطبری: ۲۹۲/۴، مطبعۃ الاستقامۃ، قاہرۃ: ۱۹۳۹ء) ’’چنانچہ حضرت حسین نے واپسی کا ارادہ کرلیا، لیکن آپ کے ساتھ مسلم بن عقیل کے جو بھائی تھے، انہوں نے کہا کہ ہم تو اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک کہ ہم انتقام نہ لے لیں یا پھر خود بھی قتل ہوجائیں۔‘‘ اور یوں اس قافلے کا سفر کوفے کی طرف جاری رہا۔ پھر اس پر بھی تمام تاریخیں متفق ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب مقام کربلا پر پہنچے تو گورنر کوفہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو مجبور کرکے آپ کے مقابلے کےلیے بھیجا۔عمر بن سعد نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے گفتگو کی تو متعدد تاریخی روائتوں کے مطابق حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے یہ تجویز رکھی۔ ((اختر منی احدیٰ ثلاث اما ان الحق بثغر من الثغور واما ان ارجع الی المدینۃ واما ان اضع فی ید یزید بن معاویۃ فقبل ذلک عمر منہ))(الاصابۃ: ۷۱/۲ الطبعۃ ۱۹۹۵ء، دارالکتب العلمیۃ) یعنی’’تین باتوں میں سے ایک بات مان لو۔میں یا تو کسی اسلامی سرحد پر چلا جاتا ہوں یا
Flag Counter