Maktaba Wahhabi

49 - 303
اب قرآن کریم کی غیر معمولی تاثیر کی چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں، یہ تمام مثالیں نزول قرآن کے زمانے کی ہیں اور ان کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو قرآن، اسلام اور نبی سے ایک طرح کا بیر رکھتے تھے اور اس کی مخالفت پر ہمیشہ کمر بستہ رہتے تھے، ان میں سے بعض نے اس قرآن کے سامنے سپر ڈال دی اور اسلام کی آغوش میں پناہ گزیں ہوئے اور بعض ایسے بدنصیب نکلے جو اس کی عظمت،صداقت اور حقا نیت کا اعتراف کرنے کے باوجود بھی عناد وتعصب کی بھینٹ چڑھ گئے، بالفاظ قرآن: ﴿بَلْ جَاء ہُم بِالْحَقِّ وَأَکْثَرُہُمْ لِلْحَقِّ کَارِہُونَ﴾(سورہ مومنون:۷۰) آپ ان کے پاس حق لائے دراں حالیکہ وہ حق کو ناپسند کرتے تھے۔ ان کی عورتیں اور بچے غیر شعوری طور پر اس کی طرف لپکتے تھے جنہیں وہ روکنے کی کوشش کرتے مگر خود ان کا حال یہ ہوتا کہ رات کی تاریکی میں چھپ چھپ کر اس کی تلاوت سے محظوظ ہوتے، انہیں اس کی بے پناہ تاثیر کا اچھی طرح احساس تھا اس لیے اس سے لوگوں کو روکنے کے لیے طرح طرح کے پروپیگنڈے کرتے جن میں سے ایک یہ بھی تھا: ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِہَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُونَ﴾(سورہ فصلت:۲۶) کفار لوگوں سے کہتے کہ قرآن کو سنو ہی نہ،اور۔(اس کے پڑھے جانے کے وقت)بیہودہ گوئی کرو،کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ۔ عمائدین قریش چھپ چھپ کر قرآن سنتے تھے: ابوسفیان بن حرب، ابوجہل بن ہشام اور اخنس بن شریق یہ تینوں ایک دفعہ رات کو اپنے اپنے طور پر اس واسطے چلے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوشیدہ ہوکر قرآن مجید سنیں اور آپ کے مکان کے باہر کسی جگہ چھپ کر بیٹھ رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن پڑھنے کی آواز ان کو سنائی دے رہی تھی اور یہ تینوں جدا جدا بیٹھے تھے اور ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی۔جب فجر طلوع ہوئی تو تینوں اٹھ کر چلے، راستے میں ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات ہوگئی، ہر ایک نے دوسرے کو ملامت کی اور کہا کہ اب نہ آنا ورنہ بعض لوگ جو تم میں جاہل اور بے عقل ہیں تمہارے یہاں
Flag Counter