Maktaba Wahhabi

275 - 303
فرماتے ہیں ہیں:’’جو شخص غصہ پی جائے حالانکہ وہ اسے نافذ کرنے(انتقام لینے)پر قادر ہو اللہ تعالی قیامت کے دن تمام مخلوقات کے سامنے اسے بلا کر یہ اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے اپنے لئے پسند کر لے۔‘‘(ابو داؤد،نسائی ،ترمذی،ابن ماجہ۔صحیح الجامع:۲۵۲۲) اس حدیث میں یہ صراحت ہے کہ انتقام کی طاقت اور قدرت کے باوجود عفوو درگذر کا راستہ اختیار کرنا باعث اجر وثواب ہے، اگر کوئی بے بس اور بزدل ہو اور اپنی کمزوری کی وجہ سے صبر کر جائے تو یہ تو اس کی مجبوری ہے ، اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا ہے ، ہاں اگر اس کی نیت میں یہ ہو کہ اگر مجھے طاقت رہتی تو بھی میں اللہ کی رضا کی خاطر صبر ہی کرتا اور انتقام نہ لیتا تو یقینا اس کو اس کا اجر ملے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا ، وہاں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور یہ منظر دیکھ کر تعجب کر رہے تھے اور مسکرا رہے تھے ، جب وہ شخص بہت زیادہ بر بھلا کہنے لگا تو حضرت ابو بکر نے اس کی بعض باتوں کا جواب دے دیا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے اور اٹھ کر جانے لگے ، حضرت ابو بکر آپ کے پاس گئے اور فرمایا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!وہ شخص مجھے گالی دے رہا تھا اور آپ وہاں تشریف فرما تھے اور جب میں نے اس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو آپ ناراض ہو گئے اور اٹھ کر جانے لگے ، آپ نے فرمایا:’’ کَانَ مَعَکَ مَلَکٌ یَرُدُّ عَلَیْہِ، فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَیْہِ وَقَعَ الشَّیْطَانُ‘‘ اے ابو بکر!آپ کے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو اس شخص کا جواب دے رہا تھا اور جب آپ نے جواب دینا شروع کیا تو شیطان حاضر ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند باتیں ارشاد فرمائیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ’’ جس بندے پر کسی طرح کا ظلم ہو اور وہ اللہ کے واسطے اس کو نظر انداز کر دے(اور معافی کا راستہ اختیار کرے)تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس بندے کی زبر دست مدد کرتا ہے ،‘‘(احمد ، وحسنہ الالبانی فی المشکاۃ:۵۱۰۲) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے
Flag Counter