Maktaba Wahhabi

260 - 303
چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور لوگوں کے ساتھ وہ برتاؤ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم) یہ بہت ہی جامع اور محیط قاعدہ ہے۔اگر ہر شخص اس قاعدے کو ہمیشہ مد نظر رکھے اور اسی کی روشنی میں لوگوں سے معاملہ کرے تو بہت سارے معاشرتی مسائل خود بخود حل ہو جائیں ، اور معاشرہ اصلاح کی راہ پر لگ جائے۔ اس قاعدہ کلیہ کا مفہوم مخالف خاص طور سے قابل توجہ ہے ، یعنی ’’ وَیَکْرَہُ لِأخِیْہِ مَا یَکْرَہُ لِنَفْسِہٖ ‘‘ اپنے بھائی کے لئے ان تمام چیزوں کو ناپسند کرے جو اپنے لئے نا پسند کرتا ہے۔ حافظ ابن حجر علیہ الرحمۃ نے فتح الباری میں اس حدیث کی شرح کے تحت کرمانی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:’’ایمان ہی کا یہ بھی ایک جزء ہے کہ آدمی اپنے بھائی کے لئے ان تمام برائیوں اور خرابیوں کو ناپسند کرے جنہیں وہ اپنے لیے ناپسند کرتا ہے، حدیث میں اس کا تذکرہ اس لیے نہیں کیا گیا کہ کسی چیز کی محبت وپسندیدگی اس کی بر عکس چیزسے بغض کو مستلزم ہوتی ہے، لہذا اول جزء کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ، واللہ اعلم۔‘‘(فتح الباری:۱ ؍ ۵۸) اس قسم کی نا پسندیدہ چیزوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے بعض کا تذکرہ قرآن کریم میں سورہ حجرات کی ان آیات میں کیا گیا ہے: ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوْا بَیْْنَ أَخَوَیْْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْْراً مِّنْہُمْ وَلَا نِسَائٌ مِّنْ نِّسَائٍ عَسٰی أَنْ یَّکُنَّ خَیْْراً مِّنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ۔یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَّ لََا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَّأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْْتاً فَکَرِہْتُمُوْہُ وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ﴾(سورہ حجرات:۱۰- ۱۲) پہلی آیت میں تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی گردانتے ہوئے ایک دوسرے
Flag Counter