Maktaba Wahhabi

258 - 303
تہذیب نے بچوں سے ان کی ماؤں کا پیار اور لطف ومحبت ہی چھین لیا ہے۔ملازمت اور آمدنی کے چکر نے بچوں کو ان کی ماؤں سے جدا کر دیا ہے ، ساتھ ہی کچھ فیشن کی ماری عورتیں اپنی گود میں بچوں کو رکھنے او ر کھلانے میں گویا اپنی توہین محسوس کرتی ہیں ، نتیجتاً یہ بچے خادماؤں کی گود میں پلتے ہیں۔ظاہر بات ہے کہ اجرت پر کام کرنے والی یہ خادمائیں بچوں کو نہ تو ماں جیسا پیار دے سکتی ہیں اور نہ ان کی خاطر خواہ تربیت کر سکتی ہیں۔اسلام نے عورت کو خاتون خانہ اور گھر کی ملکہ قرار دیا ہے اور اسے کسب معاش کی ذمہ داری سے مستثنی رکھا ہے تو اس میں ڈھیر ساری حکمتیں او ر مصلحتیں ہیں جن میں ایک بچوں کے تربیتی حقوق کی ادائیگی بھی ہے۔ ایک باپ کوخلیفہ دوم کی سرزنش: خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص شکایت لے کر آیا کہ اس کا بیٹا بڑا نافرمان ہے، اس کی کوئی بات نہیں مانتا۔حضرت عمر نے بیٹے کو طلب کیا اور اسے سمجھانے لگے۔بیٹا کہنے لگا:امیر المؤمنین!کیا بچوں کے بھی باپ پر کچھ حقوق ہیں؟ انہوں نے کہا بالکل ہیں، لڑکا پوچھتا ہے کہ وہ حقوق کیا ہیں امیر المؤمنین؟ آپ نے فرمایا:ایک یہ کہ ماں کا صحیح انتخاب کرے، دوسرے یہ کہ بچے کا اچھا نام رکھے، تیسرے یہ کہ اسے قرآن کی تعلیم دے۔ بیٹا کہتا ہے کہ امیر المؤمنین!انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا، رہا معاملہ میری ماں کا تو وہ ایک حبشی عورت ہے جو پہلے ایک مجوسی کے عقد میں تھی، جہاں تک نام کا معاملہ ہے تو انہوں نے میرا نام ’’جُعَل‘‘(گبریلا)رکھا ہے، تعلیم کا جہاں تک معاملہ ہے تو انہوں نے مجھے قرآن کے ایک حرف کی بھی تعلیم نہیں دی۔ امیر المؤمنین اس آدمی کی طرف متوجہ ہوکر کہتے ہیں:تم میرے پاس اپنے بیٹے کی نافرمانی کا شکوہ لے کر آئے ہو، حالانکہ اس کی نافرمانی سے پہلے تم نے اس کی نافرمانی کی اور اس کی بدسلوکی سے پہلے تم نے اس کے ساتھ برا سلوک کیا۔
Flag Counter