Maktaba Wahhabi

257 - 303
قدیم وجدید دونوں جاہلیتوں میں وہ ظلم واستحصال کا شکار بنتی رہی ہیں، اسلامی شریعت نے ان کی کمزوری اور مظلومیت کے پیش نظر اپنے متبعین کو ان پر خصوصی توجہ دینے کا حکم دیا ہے اور ا ن کی تربیت، کفالت اور ان پر رحمت وشفقت پر اجر وثواب کا وعدہ کیا ہے۔چند روایتیں پیش کی جاتی ہیں: ۱- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک عورت اپنی دو بچیوں کولے کرمیرے یہاں آئی وہ بھیک مانگ رہی تھی،اس نے میرے یہاں کچھ نہیں پایاسوائے ایک کھجور کے جو میں نے اس کو دیا، اس نے کھجور کے دو ٹکڑے کر کے دونوں بچیوں کو دے دیا اور خود اس میں سے کچھ نہیں کھایا ،پھر اٹھی اور چلی گئی ،اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو میں نے ان کو یہ بات بتلائی، اس پر آپ نے فرمایا: ’’مَنْ اُبْتُلِيَ مِنْ ہٰذِہِ البَنَاتِ بِشَيْئٍ فَأَحْسَنَ إلَیْہِنَّ، کُنَّ لَہُ سِتْراً مِنَ النَّارِ۔‘‘(بخاری:۱۳۲۹، مسلم:۲۶۲۹) ’’جس کو ان بچیوں کے ذریعے آزمایا جا ئے پس وہ ان کے سا تھ اچھا بر تا ؤ کرے تو وہ بچیاں اس کے لیے جہنم کی آگ سے پر دہ اور روک بن جائیں گی۔‘‘ ۲- حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَنَا وَھُوَ کَھَاتَیْنِ،وَضَمَّ اَصَابِعَہٗ۔‘‘(مسلم) ’’جس نے دو بچیوں کی پرورش کی حتیٰ کہ وہ بالغ ہوگئیں قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح(قریب قریب)ہوں گے ‘‘اور آپ نے اپنی انگلیاں ملا دیں۔ یہاں اس امر کی طرف اشارہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بچے کی تربیت میں ماں کا کردار بے حد اہم ہوتا ہے ،کیونکہ اس کا زیادہ تروقت ماں کے ساتھ گزرتا ہے۔لیکن جدید
Flag Counter