Maktaba Wahhabi

227 - 303
جیسا کہ ابھی ذکر ہوا۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سچے اور درست کام کے لیے بار بار اور خوب قسمیں کھاتے چلے جائیں، کیوں کہ بکثرت قسم کھانے میں اللہ کے نام کی ایک طرح سے توہین اور اس کا استخفاف ہے، خرید و فروخت میں بعض دکانداراپنے گراہکوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے اور زیادہ سامان بیچ لے جانے کی غر ض سے بار بار قسم کھاتے ہیں، مگر حدیثوں میں کہا گیا ہے کہ یہ چیز کاروبار کی برکت کو مٹا دینے والی ہے۔ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: ’’قسم سامان کے زیادہ بکنے کا سبب ہے ،مگر کمائی کی برکت مٹانے کا ذریعہ بھی ہے۔‘‘ (بخاری ومسلم) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: ’’خریدو فروخت میں زیادہ قسم کھانے سے بچو، اس لیے کہ اس سے سامان توزیادہ بک جاتا ہے لیکن یہ طریقہ برکت کو ختم کردیتا ہے۔‘‘(مسلم) ۷- دوسرے کے سودے پر سودا کرنا: یہ صورت بہت زیادہ رائج ہے مگر شریعت نے اس سے سختی سے منع کیا ہے، اس کی شکل یہ بتائی گئی ہے کہ کوئی آدمی دس روپئے میں کوئی سامان خرید رہاہو، بیچ میں کوئی دوسرا شخص آجائے اور یہ کہے کہ میں اسے تمہیں نو ہی روپئے میں دے دوں گا، یا اس سے کم میں دے دوں گا جتنے میں تم خرید رہے ہو۔اسی طرح کوئی شخص اپنا سامان کسی کو دس روپئے میں بیچ رہا ہو، اتنے میں کوئی دوسرا شخص آکراس بیچنے والے سے یہ کہنے لگے کہ میں یہ سامان تم سے پندرہ روپئے میں خرید لوں گا، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پہلا شخص سامان چھوڑ کر چلا جائے اور وہ اس کو خرید لے۔الغرض بیچنے اورخریدنے والے دونوں کی طرف سے ایسا کیا جاتاہے مگر یہ حد درجہ برا عمل ہے اس سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچتا ہے، ساتھ ہی آپس میں بغض وعناد اور اختلاف ونزاع پیدا ہوتا ہے۔
Flag Counter