Maktaba Wahhabi

198 - 303
خاموش رہ جانا ایک منکر امر ہے، مگر علم وتقوی سے آراستہ ناصح اس فریضہ کی ادائیگی کے وقت بقیہ مصلحتوں کو بھی سامنے رکھتا ہے اور جس قدر ہو سکے مفاسد کو دفع کرنے کی کوشش کرتا ہے، ساتھ ہی جملہ مقاصد شرعیہ کی رعایت اس کے پیش نظر ہوتی ہے، ان مقاصد میں سے جو اللہ کی مرضی سے زیادہ قریب ہو اسے وہ مقدم رکھتا ہے۔ اسی لیے امامانِ دین بعض آراء اور بعض اجتہادی اعمال کو محض اس لیے چھوڑ دیتے تھے تاکہ اتفاق واتحاد کا ماحول برقرار رہے اور فتنہ وفساد سے بچا جاسکے ، ایسا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں کرتے تھے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وضع کردہ بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے ، مگر ایسا نہ کیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کی وجہ بیان فرماتے ہوئے کہا کہ:چونکہ تیری قوم جاہلی دور سے جلد ہی نکلی ہے اس لیے مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان کے دل اس کو تسلیم کرنے سے انکار نہ کردیں، اگر یہ خوف نہ ہوتا تو میں اس دیوار کو بھی بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دیتا۔(بخاری:۱۵۸۶ ، مسلم:۱۳۳۳) اسلامی بیداری کے دور میں ابنائے امت کو ایسی ایمانی تربیت کی سخت ضرورت ہے، جو طبیعتوں کو تہذیب سے آراستہ کرے ، اجتہادات میں توازن اور بصیرت سے کام لینے کا راستہ دکھائے ، اور کسی بھی موقف کو اپناتے وقت اور کسی بھی رد عمل کا اظہار کرتے وقت اعتدال اور وسطیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دے، ایسی تربیت کے فقدان سے ہم مزید اختلاف وانتشار اور گروہ بندی سے دوچار ہوتے رہیں گے ، اللہ ہر قسم کے فتنے سے محفوظ رکھے ، آمین۔
Flag Counter