Maktaba Wahhabi

180 - 303
اسی کا عادی ہو جاتا ہے تو مختلف قسم کی بیماریاں اس کے حصے میں آتی ہیں جن میں سے بعض جلد رخصت ہو جاتی ہیں تو بعض لمبے عرصے تک باقی رہتی ہیں، البتہ جب انسان غذا کے سلسلے میں میانہ روی سے کام لیتا ہے، ضرورت کے بقدر غذا کا استعمال کرتا ہے اور کمیت وکیفیت دونوں میں اعتدال کی راہ اختیار کر تا ہے تو کثیر مقدار میں کھائی جانے والی غذا کے مقابل اس غذا سے اس کے جسم کو فائدہ زیادہ پہنچتا ہے۔‘‘ ابن القیم مزید لکھتے ہیں کہ غذا کے تین مراتب ہیں:(۱)ضرورت(۲)کفایت(۳)زیادہ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ چند لقمے جن سے انسان کی پیٹھ سیدھی رہ سکے اور اسے کوئی کمزوری نہ لاحق ہو وہی اس کے لیے کافی ہیں، اگر اس سے زیادہ کی خواہش ہے تو ایک تہائی حصہ میں کھائے ، ایک تہائی کو پانی کے لیے چھوڑ دے ، اور ایک تہائی کو سانس لینے کے لیے ، یہ بدن اور دل دونوں کے لیے بیحد مفید ہے ، کیونکہ پیٹ اگر صرف کھانے سے پُر ہو جائے تو پانی کے لیے گنجائش نہیں رہ جاتی ، اگر اسی پر پانی بھی پی لیا جائے تو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، اور آدمی بیچین اور بوجھل ہو جاتاہے ، اور اس کی حالت اس آدمی جیسی ہو جاتی ہے جس نے کوئی بھاری بوجھ اٹھا رکھا ہو ، اس کے علاوہ فساد قلب ، نیکی کے کاموں میں سستی اور آسودگی کے نتیجے میں خواہشات کی انگڑائی جیسے نتائج الگ ہیں۔پس معلوم ہوا کہ کھانے سے پیٹ بھرلینا دل اور جسم دونوں کے لیے مضر ہے … آسودگی سے زائد کھانے سے جسم اور اس کے قوی کمزور ہو جاتے ہیں ، بھلے تندرست دکھائی پڑے ، جسم غذا کی کثرت سے مضبوط نہیں ہوتا ، بلکہ جتنی غذا کو قبول کرتا ہے اسی کے بقدر طاقت ور ہوتا ہے۔‘‘ ا ھ(زادالمعاد ،الآداب الشرعیۃ ، وکتب اخری)
Flag Counter