Maktaba Wahhabi

16 - 303
ومستحبات کی ادائیگی میں مدد ملے گی اور اسی طرح کی نیت صالحہ اپنے اکل وشرب، راحت وآرام وغیرہ میں شامل رکھے تو اس کی عادتیں بھی عبادتوں میں بدل جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ اس بندے کے کاموں میں برکت دیتا ہے اور اس کے لیے خیر اور رزق کے ایسے دروازے کھول دیتا ہے جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتے۔اور جس شخص سے ناواقفیت یا سستی کی وجہ سے ایسی نیت صالحہ فوت ہوجائے وہ اپنے علاوہ کسی اور کو ملامت نہ کرے، حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم کوئی بھی کام کرتے ہو اگر اس سے اللہ کی رضا مقصود ہوتو اس کا م پر تم کو اجر ملتاہے، حتی کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منھ میں ڈالتے ہو اس پر بھی۔ (بخاری) (بہجۃ قلوب الأبرار للسعدی،ص:۸-۹) ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ انسان اگر اپنی نیت درست رکھے، خلوص وللہیت اور صدق دل سے کام میں لگا رہے اور اللہ کی رضا کو ہمیشہ پیش نظر رکھے تو عبادات ہی کیا اس کا ہر ہر کام اس کو اجر وثواب سے ہمکنار کرتاہے، اور عذر کی وجہ سے عمل نہ کرنے کی صورت میں بھی اسے عامل ہی مانا جاتا ہے۔ اس کے برعکس عبادات اور نیکیوں کا بڑے سے بڑا کام بھی انسان انجام دیتا جائے مگر اس میں خلوص کی کمی ہے، ریا کا شائبہ ہے، شہرت کی تمناہے، کوئی مادی یا معنوی منفعت مقصود ہے تو ایسی عبادات اور ایسے اعمال خیر سے اس کو شاید کچھ حاصل ہونے والا نہیں یا جتنا حاصل ہونا چاہیے اتنا حاصل نہیں اور بسا اوقات الٹے سزا وعقاب کا بھی وہ مستحق ہوسکتا ہے۔والعیاذ باللّٰه۔
Flag Counter