Maktaba Wahhabi

15 - 303
شامل ہوتی ہے، جیسے خدمت کی اجرت لینا یا کچھ مال غنیمت لینا ،یا تجارت کرنا، تو اس سے اس کے جہاد کے اجروثواب میں کمی آجاتی ہے بالکلیہ باطل نہیں ہوتی۔۔۔۔۔(فتح المجید:۳۲۵) علامہ عبد الرحمن بن ناصر السعدی لکھتے ہیں کہ عمل کرنے والے کے دل میں جس قدر ایمان واخلاص ہوتا ہے اسی کے بقدر اس کو ثواب ملتا ہے، حتی کہ نیت صادقہ رکھنے والا عمل کرنے والے کے درجے کو جا پہنچتا ہے خاص طور سے اگر عمل کا کچھ حصہ اس سے جڑ جائے، چنانچہ فرمان الٰہی ہے:﴿وَمَن یَخْرُجْ مِن بَیْتِہِ مُہَاجِراً إِلَی اللّٰهِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلی اللّٰهِ﴾(سورہ نساء:۱۰۰)’’جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کی غرض سے اپنے گھر سے نکلا پھر اس کی موت آگئی تو اس کا اجر اللہ کے یہاں ثابت ہوگیا۔‘‘ اور حدیث میں ہے کہ جب بندہ بیمار ہوجاتا ہے یا سفرمیں چلا جاتا ہے تو صحت کی حالت میں اورمقیم ہونے کی حالت میں جو نیک عمل کرتا تھا اس کا اجر اس کے لیے لکھا جاتا ہے۔(بخاری) ایک دوسری حدیث میں مجاہدین صحابہ کو مخاطب کرکے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مدینہ میں کتنے ایسے لوگ ہیں کہ تم جو بھی سفر کرتے ہو اور جو وادیاں طے کرتے ہو(جہاد میں)ان سب میں وہ تمہارے ساتھ اجر وثواب میں برابر کے شریک ہوتے ہیں، ان کو عذر یا مرض نے جہاد میں شریک ہونے سے روک رکھا ہے۔(بخاری ومسلم) علامہ سعدی ’’جیسی نیت ویسی برکت‘‘ کی مثال کے طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ذکر کرتے ہیں کہ:’’جو شخص لوگوں کا مال اس ارادہ سے(بطور قرض یا عاریت)لیتا ہے کہ پھر ادا کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کی جانب سے ادائیگی کا انتظام کرادیتا ہے، اور جو برباد کرنے کی نیت سے لیتا ہے، اللہ تعالیٰ اسی کو برباد کردیتا ہے۔‘‘(بخاری) اسی طرح مباح کاموں اور دنیاوی امور میں بھی نیت کا دخل ہوتا ہے، چنانچہ جو شخص اپنی کمائی اور اپنے دنیاوی اعمال وعادات میں یہ نیت رکھے کہ اس سے اللہ کا حق اور واجبات
Flag Counter