Maktaba Wahhabi

67 - 75
کچھ ایسی ہی بات شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒصاحب سے بھی انکی کتاب ایضاح الادلّہ میں ہوگئی، جسکی تفصیل تو ہم ذکر کرآئے ہیں جس پر تبصرہ حضرۃ العلّام محدّث ِعصر مولانا سلطان محمود جلال پوری ؒ کا ہے البتہ یہاں ہم مولانا حکیم محمد اشرف سندھو رحمہ اللہ کا تبصرہ بھی نقل کردیتے ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’اب حفّاظ ِقرآن یا کوئی شخص شروع سے لیکر آخر تک قرآن ِکریم پڑھ لے ،کہیں بھی یہ آیت ہرگز نہیں ہے ، اور یہ بھی اگر اُن سے سہواً ہوا ہو تا تو تیس سال کے بعد جب مطبع قاسمی دیوبند والوں نے اسکا دوسرا ایڈیشن چھاپا تو اسوقت ہی اسکی تصحیح کردیتے۔ اور اگر وہ صرف اس آیت کی تصحیح کر دیتے تواسکے بعد والی ایک آدھ نہیں بلکہ پوری سات سطروں کا کیا کرتے جنکی بنیادہی اس ’’غیرقرآنی آیت ‘‘یاقرآنی آیت میں اپنی طرف سے بڑھائے گئے الفاظ پررکھی گئی ہے؟اور پھر متنازع فیہ امور میں فیصلہ کیلئے بتائے گئے طریقہ کے سلسلہ میں اس معاملہ کواللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم تو قرآن میں ہے ۔اس پر [وَأُولِي الْأَمْرِمِنْکُمْ] [1] کا اضافہ من گھڑت ہے ، اور ستم ظریفی یہ کہ پھبتی یہ کَسی جارہی ہے کہ [آپ تو دونوں آیتوں کو حسب ِ عادت متعارض سمجھ کر ایک کے ناسخ اور دوسری کے منسوخ ہونے کا فتوی لگانے لگیں گے۔][2] بھئی! جب قرآن میں ایسی کوئی آیت ہی نہیں ہے تو ناسخ و منسوخ کا فتویٰ کیوں ؟ قرآن ِکریم کھول کر دیکھ لیجیئے ، پانچواں پارہ ،پانچواں رکوع، سورئہ نساء (آیت :۵۹ ) پڑھ لیں، وہاں تو صرف اطاعت کے وقت اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اولی الأمر کا ذکر آیا ہے، اور منازعت و اختلاف کے وقت صرف اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے ، اولی الأمر کا نہیں،چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے : { یٰٓأَ یُّـھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْکُمْ
Flag Counter