Maktaba Wahhabi

70 - 75
4 بریلوی مکتبِ فکر کے بانی فاضل بریلوی کے افکار کی ترویج وا شاعت کے وکیل مُفتی احمد یار خان صاحب بدایونی گجراتی نے ایک کتاب ’’جاء الحق و زہق الباطل ‘‘المعروف’’فیصلۂ مسائل‘‘کے نام سے لکھی تھی جسکا سرسری تعارف ہم اپنی کتاب ’’قائلینِ رفع یدین کے دلائل‘‘ میں سے حدیث ِ حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ کے ضمن میں کروا چکے ہیں جبکہ اس کا تو نام ہی’’جاء الحق‘‘ [نہند نامِ زنگی کا فور] والی بات ہے ، جسکی ایک مثال مذکورہ مقام پر بھی ذکر کی تھی۔ اور ’’قراتِ فاتحہ ‘‘ نامی اپنی کتاب[1] میں ہم’’مانعین ِقراء ت کے دلائل‘‘کے ضمن میں بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ موصوف نے اپنے نظر یہ کے اثبات کے لیٔے آئمہ کرام کے اقوال میں عجیب عجیب تاویلات کی ہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ بعض قرآنی آیات میں بھی کمی بیشی کرنے سے نہیں بچ پائے۔ چنانچہ ’’جاء الحق ‘‘حصہ دوم کے صفحہ(۳۹) پر ایک اعتراض ان الفاظ میں نقل کیا ہے : اعتراض : اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کا عمل یہی ہے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت کرتے تھے ، امام ترمذی اس حدیثِ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے تحت فرماتے ہیں: ( وَالْعَمَلُ عَلـٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ فِي الْقِرَائَ ۃِ خَلْفَ الْاِمَامِ عِنْدَ أَکْثَرِ أَھْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَالتَّابِعِیْنَ ) ’’نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین ِکرام رحمۃ اللہ علیہم میں سے اکثر اہلِ علم کے نزدیک امام کے پیچھے قراء ت کرنے کے معاملہ میں اسی حدیث پر عمل ہے ۔‘‘ پھر اس اعتراض کو رفع کرنے کیلئے اسکے کئی جواب دیئے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں: جواب : اسکے چند جواب ہیں: ایک یہ کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کا یہاں ’’ اکثر‘‘ فرمانا اضافی نہیں بلکہ حقیقی ہے، اسکے معنیٰ یہ نہیں
Flag Counter