ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ ، عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ او رزبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اس مذہب کے قائل ہیں ۔ اور تابعین میں سے طاوس، عطاء، جابر بن زید، عبد اللہ بن موسیٰ، محمد بن اسحق رحمہم اللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اکثر شاگردوں نے یہی مؤقف اختیار کیا ہے۔ اور اتباعِ مذاہب میں سے داود اور ان کے شاگردان ، اما م ابو حنیفہ کے بعض شاگرد ، امام مالک کے بعض شاگرد ،امام احمد بن حنبل کے بعض شاگرد،اسی طرح المجدعبد السلام بن تیمیہ اور ان کے پوتے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور پھر ان کے شاگرد جن میں امام ابن القیم سرفہرست ہیں جنہوں نے اپنی دونوں کتابوں ’’زاد المعاد‘‘ اور ’’اِغاثۃ اللہفان‘‘ میں اس مسئلے پر طویل بحث کی ہے اور مخالفین کے دلائل کا تسلی بخش جواب دیا ہے۔ ‘‘ اس کے بعد شیخ بسام رحمہ اللہ نے جمہور کے دلائل کا جواب دیا ہے ۔ اور وہ جو عملِ صحابہ کو دلیل بناتے ہیں اس کے متعلق لکھتے ہیں : ترجمہ : ’’رہا عملِ صحابہ سے استدلال تو آپ بتائیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کون پیروی کا زیا دہ حق دا رہے ؟جب کہ ہم کہتے ہیں کہ ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے تھے ۔ پھر عہد صدیقی میں بھی یہی حال تھا ،پھر عہد فاروقی کے ابتدائی سالوں میں بھی ایسا ہی رہا ۔ اس کے بعد تین کو تین شمار کیا جانے لگا جس کا سبب ہم بیان کرچکے ہیں ۔ تو اس سے ثابت ہوا کہ خلافت ِعمر رضی اللہ عنہ سے پہلے تک جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین کو ایک تصور کرتے تھے ۔ لہذا تین کو تین شمار کرتے ہوئے عمل صحابہ کو دلیل بنانا درست نہیں کیونکہ عہد صدیقی |