چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آگاہ تھے اس لئے انھوں نے بھی اس پر خاموشی اختیار کی۔ قارئین ! آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ پر غور فرمائیں (فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ ) ’’کیوں نہ ہم اسے ان پرنافذ کر دیں ۔‘‘ ان الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کرتے وقت یہ نہیں فرمایا کہ یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے بلکہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی نسبت اپنی طرف کی۔ لہذا یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا جو مخصوص حالات کو پیش نظر رکھ کر لوگوں کے ایک مخصوص طرزِ عمل کو روکنے کے لئے انھوں نے کیا تھا۔ بعد میں انھوں نے اپنے اِس فیصلے پر ندامت کا اظہارکیا تھا ۔ [ اغاثۃ اللہفان ج ۱ ص ۴۹۳] کیا تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنااجماعی مسئلہ ہے ؟ بعض حضرات بڑے شد ومد سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیک وقت دی ہوئی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم جاری کیا تب سے اس حکم پر اجماع چلا آرہا ہے۔ اور اس سے سوائے اہلحدیثوں کے کسی اور نے اختلاف نہیں کیا!! یہ ایک بہت بڑی علمی خیانت ہے اور جھوٹے پروپیگنڈہ کے سواکچھ بھی نہیں کیونکہ: 1. عہد صدیقی او رحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں بھی تو اس بات پر اجماع تھا کہ اکٹھی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کیاجائے۔ اس اجماع کی حیثیت کیا ہوگی ؟کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جاری کردہ ایک تعزیری حکم سے وہ اجماع باطل قرار پائے گا او رنا قابل عمل ہوگا ؟ 2. اس میں کوئی شک نہیں کہ تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم ایک خلیفۂ راشد نے جاری کیا (اگرچہ یہ حکم ایک تعزیری حکم تھا ) لیکن انھیں ایک طلاق شمار کرنے کا قانون بھی تو ان |