Maktaba Wahhabi

52 - 67
( کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَبِی بَکْرٍ وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً ۔ فَقَالَ عُمَرُ : إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوْا فِی أَمْرٍ کَانَتْ لَہُمْ فِیْہِ أَنَاۃٌ فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ ، فَأَمْضَاہُ عَلَیْہِمْ ) ’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے عہد میں ،پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پورے دور ِخلافت میں اور پھر عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دوسالوں میں ( اکٹھی )تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : لوگ ایک ایسے معاملہ میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کیلئے مہلت موجود تھی ۔ لہذا کیوں نہ ہم اسے ان پرنافذ کر دیں ! پھر انھوں نے تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کردیا ۔ ‘‘ [مسلم: ۱۴۷۲] اس حدیث سے جہاں ہمیں یہ معلوم ہو ا کہ ابتداء میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لیکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دوسالوں تک تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی شمار کیا تھا ، وہاں یہ بھی پتہ چلا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اکٹھی تین طلاقوں کو تین طلاقیں شمار کرنے کا حکم کیوں جاری کیا۔ حالانکہ عہد ِرسالت ،عہد صدیقی اور خود ان کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایسا نہیں تھا۔یعنی جب تک لوگ طلاق دینے کے شرعی طریقے کے پابند تھے اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی عہد رسالت اور عہد صدیقی میں رائج قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتے رہے ۔ بلکہ اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دیتا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی پشت پر درے بھی رسید کرتے تھے ۔ [ فتح الباری :ج۱۱ص۲۷۷] کیونکہ یہ فعل شریعت میں انتہائی ناپسندیدہ تھا ۔لیکن جب لوگ کثرت سے ایسا کرنے لگے تو انھوں نے سزا کے طور پرتین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم جاری کردیا تاکہ لوگ اس سے باز آجائیں اور طلاق کے معاملے میں غورو فکر اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں ۔ اس اقدام کی وجوہات سے
Flag Counter