چند اہم دلائل ملاحظہ فرمائیے : 1.اللہ تعالی کے فرمان﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن﴾کی روشنی میں دو طلاقیں الگ الگ دینے کی جو حکمت ہم نے ذکر کی ہے یہ حکمت تبھی پوری ہو سکتی ہے جب ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جائے اور اس کے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہو ۔ورنہ اگر تینوں کو تین ہی شمار کر لیا جائے تو رجوع کا حق ختم ہو جائے گا جو سراسر ناانصافی ہے اور قرآنی حکم کے خلاف ہے ۔ 2. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں جس پر انہیں شدید غم لاحق ہوا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : تم نے اسے کیسے طلاق دی تھی ؟ انہوں نے کہا : میں نے اسے تین طلاقیں دی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ایک ہی مجلس میں ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تینوں ایک ہی ہیں لہذا تم اگر رجوع کرنا چاہتے ہو تو کرسکتے ہو ۔ لہذا انہوں نے رجوع کر لیا ۔ [ مسند احمد : ج 1 ص 265 حدیث نمبر : 2387] اس حدیث کو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابن القیم رحمۃاللہ علیہ اور علامہ احمد شاکر رحمۃاللہ علیہ نے صحیح جبکہ محدث البانی رحمۃاللہ علیہ نے حسن قرار دیا ہے ۔ [ الفتاوی ج 3 ص 18 ، زاد المعاد ج 5 ص 263، ارواء الغلیل ج 7 ص 144] اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ یہ حدیث اس مسئلہ میں واضح دلیل ہے اور اس میں کوئی ایسی تاویل نہیں ہو سکتی جو دیگر روایات میں ہو سکتی ہے۔‘‘ [فتح الباری ج 9 ص 362] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ |