پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد خاوند رجوع کر سکتا ہے ۔ یعنی عدت کا اندر وہ قولی یا عملی طور پر رجوع کر نے کا حق رکھتا ہے ۔ اور عدت گذرنے کے بعد بھی وہ نیا نکاح کر کے اپنے عقد میں لاسکتا ہے ۔ تاہم اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جن تین طلاقوں کا اسے اختیار دیا گیا تھا وہ ان میں سے دو کا استعمال کر چکا ۔ اور یہ دونوں طلاقیں واقع ہو چکیں ۔ اب اس کے بعد اس کے پاس آخری طلاق کا اختیار رہ جائے گا ۔ پھر تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد اسے رجوع کا حق حاصل نہیں رہے گا ۔ یہ جو رجوع کی گنجائش رکھی گئی ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر خاوند نے بغیر سوچے سمجھے جلد بازی میں طلاق دے دی ہو تو اسے سوچنے اور غور وفکر کرنے کا موقع مل جائے ۔ ورنہ اگر پہلی طلاق کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لیے جدائی کا حکم ہوتا تو اس سے بہت سارے گھر تباہ ہو سکتے تھے ۔ فرمانی الٰہی ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ میں اس حکمت کی طرف اشارہ کیا گیاہے ۔ چونکہ اکٹھی تین طلاقیں دینا قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے بالکل برعکس ہے اس لیے پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اسے قابل تعزیر جرم قرار دینے کی سفارش کی ہے ۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’ہدایہ ‘ میں بیک وقت تین طلاقوں کو بدعت کہا گیا ہے اور اس طرح طلاق دینے والے کو عاصی اور گناہگار بتایا گیا ہے ۔ [ ہدایہ ج ۲ ص ۳۵۵] 10. طلاق دینے کا صحیح طریقہ طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ خاوند بیوی کو اُس طہر میں ایک بار طلاق دے جس میں |