بالکل واضح ہیں اس لئے ان الفاظ کے ساتھ طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ خاوند کی نیت کچھ بھی ہو۔ 2. طلاقِ کنایہ ۔ یعنی ایسے الفاظ استعمال کرنا جن سے طلاق کا معنی بھی سمجھا جائے اور کوئی دوسرا معنی بھی مراد لیا جا ئے ۔ مثلا تم اپنے گھر چلی جاؤ ، اب اِس گھر میں تمھاری کوئی جگہ نہیں ، تم مجھ سے الگ ہو جاؤ وغیرہ ۔ اِس طرح کے الفاظ میں خاوند کی نیت کا اعتبار کیا جاتا ہے ۔ اگر اس کی نیت صرف بیوی کو ڈرانا دھمکانا ہی ہو تو طلاق نہیں ہوتی ۔ اور اس کی نیت طلاق دینا ہو تو طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ 5. طلاق کی مختلف صورتیں طلاق کی تین صورتیں ہیں : 1. خاوند اپنی بیوی کو کہے کہ تمھیں طلاق ہے ، یا میں نے تمھیں طلاق دی ۔ ان الفاظ کے ساتھ طلاق اُسی وقت واقع ہو جاتی ہے ۔ 2. وہ اپنی بیوی کو یوں کہے : تمھیں آنے والی کل سے طلاق ہے ، یا جب فلاں مہینہ شروع ہو گا تو تمھیں طلاق ، یا ایک سال بعد تمھیں طلاق ۔ ان الفاظ کے ساتھ طلاق تب واقع ہو گی جب وہ مقررہ وقت آئے گا ۔ اس سے پہلے نہیں ۔ 3. خاوند کسی کام کے ساتھ طلاق کو معلق کردے ۔ مثلا وہ یہ کہے کہ اگر تم بازار گئی تو تمھیں طلاق ۔ یا اگر تم نے فلاں کام کیا تو تمھیں طلاق ۔ ان الفاظ میں خاوند کی نیت دیکھی جائے گی ۔ اگر اس کا ارادہ صرف اسے اس کام سے روکنا تھا تو طلاق واقع نہیں ہو گی ۔ تاہم اگر اس کی بیوی وہ کام کرلے تو اس میں قسم کا کفارہ دینا پڑے گا کیونکہ وہ ایسے ہی تھا جیسے اسکے خاوند نے اسے قسم |