Maktaba Wahhabi

54 - 67
سے افضل ایک خلیفۂ راشد ہی کے دورِ خلافت کا قانون تھا ۔پھر خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی قانون کو دوسال تک درست قرار دیا ۔اسی طرح خلفائے راشدین میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مذہب بھی تین طلاقوں کو ایک طلاق شما رکرنا تھا۔ توبتائیے دعوائے اجماع کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ 3. حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ بھی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنے کے قائل تھے ۔ لہذا اجماع کا دعوی کرنا کیسے درست ما نا جائے گا ! 4. تابعین رحمۃ اللہ علیہ و تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم میں سے عطاء رحمۃ اللہ علیہ ،طاوس رحمۃ اللہ علیہ اور عمر و رحمۃ اللہ علیہ بن دینار وغیرہ بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتے تھے۔ (فتح الباری :ج ۱۱ص۲۷۸) 5. علمائے امت مثلا شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،حافظ ابن القیم ،حافظ ابن حجر ،امام قرطبی ،امام فخرالدین الرازی،امام شوکانی وغیرہ نے اس مسئلے کو اختلافی مسئلہ قرار دیاہے۔ توکیونکر اسے اجماعی مسئلہ تصور کر لیا جائے ! 6. ہندوستان میں اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ احمد آباد کے زیر اہتمام نومبر ۱۹۷۳؁ء میں ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں چھ دیوبندی اوردو اہلحدیث علماء نے شرکت کی ۔ ان میں سے سات نے اس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں پر مقالے پیش کیے اور سوائے ایک کے باقی سب نے اس مسئلے کو عہد صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہی اختلافی مسئلہ قرار دیا اور سب نے وہی موقف اختیار کیا جو اہلحدیثوں کا ہے ۔اس سیمینار کی پوری کارروائی اور اس میں پیش کیے جانے والے مقالوں کو بعد میں ایک کتاب بعنوان ’’ایک مجلس کی تین طلاق، قرآن و سنت کی روشنی میں ‘‘کی شکل میں
Flag Counter