Maktaba Wahhabi

669 - 699
ہیں کہ میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ عہدِ جاہلیت میں ہم بعض امور پر یہ عقیدہ رکھتے تھے،مثلاً ہم کاہنوں کے پاس جاتے تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {فَلَا تَأْتُوا الْکُھَّانَ}’’کاہنوں کے پاس مت جاؤ۔‘‘ انھوں نے عرض کی کہ ہم پرندے کو اُڑا کر شگون لیتے تھے تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {ذٰلِکَ شَیْیٌٔ یَجِدُہٗ أَحَدُکُمْ فِيْ نَفْسِہٖ فَلَا یَصُدَّنَّکُمْ}[1] ’’یہ ایک چیز ہے،جسے تم میں سے کوئی شخص اپنے دل میں پاتا ہے،لیکن تمھیں یہ کسی کام سے نہ روکے۔‘‘ ضعیف الاعتقاد لوگوں کو لوٹنے اور ایسی خرافات پھیلانے والوں کو بقول علامہ محمد جمال الدین القاسمی مساجد کے حجروں میں نہیں رہنے دینا چاہیے اور ان لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ کمائی کی ہوس میں ہر جائز و ناجائز طریقہ اپنائیں،بلکہ رزق کے صرف حلال ذرائع سے روزی کمانے کا اہتمام کریں،کیونکہ وہ تو کچھ نہ کچھ پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں،کیا وہ عامل حضرات قرآنِ کریم نہیں پڑھتے؟ سورۃ البقرہ میں انہی جیسے تعویذ گنڈے کرنے والے فریب کاروں کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿فَوَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَ وَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ﴾[البقرۃ:79] ’’تباہی ہے ان کی اس لکھائی پر اور ہلاکت ہے ان کی اس کمائی پر۔‘‘ کیا انھیں معلوم نہیں کہ سحر اور یہ جادو،ٹونے کفریہ افعال ہیں اور یہ رمل و فال اور نجومت و کہانت سب ممنوع ہیں؟ قرآنِ کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جادو سیکھنے اور اسے بروئے کار لانے والا کافر ہے،جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں ہاروت و ماروت کا قول نقل کیا ہے کہ وہ اپنے پاس جادو سیکھنے کے لیے آنے والوں سے کہتے ہیں: ﴿اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ﴾[البقرۃ:102] ’’یقینا ہم آزمایش کے لیے ہیں،لہٰذا تم کفر میں نہ پڑو۔‘‘
Flag Counter