Maktaba Wahhabi

89 - 128
التاریخ الکبیر کا منہج: جو ہم نے استقراء اور تتبع سے سمجھا،وہ پیش خدمت ہے: ۱: ہر راوی کا مکمل نام باپ، دادا کنیت اورنسبت لکھتے ہیں۔حروف تہجی کے اعتبار سے مکمل کتاب لکھی ہے تاکہ راوی تلاش کرنا آسان ہو لیکن محمد نام کو مقدم کیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے شرف کی وجہ سے۔پھر ہر حرف میں صحابہ کا تذکرہ پہلے کیا خوا ہ باپوں کے ناموں کی ترتیب مشترک اسماء میں مخالف ہی ہو جائے۔[1] ۲: ہر راوی کی ایک مرفوع روایت ذکر کرتے ہیں۔اس پر ایک مستقل کتاب ’’الاحادیث المرفوعہ من التاریخ الکبیر ‘‘کے نام سے مرتب کی گئی ہے جس میں ۸۵۱ روایات جمع ہیں۔ ۳: کئی ایک ضعیف روایات بھی نقل کرتے ہیں اور ان پر ضعف کا حکم بھی لگاتے ہیں۔ میں نے اپنے پہلے سفرِ حرمین میں جولائی ۲۰۱۱ء کو مکہ مکرمہ میں عائشہ ہوٹل جو کبوتر چوک کے بالکل ساتھ ہے،میں بیٹھ کر مکمل التاریخ الکبیر کا مطالعہ کیااور اس سے’’ الاحادیث الضعیفہ عندالامام البخاری ‘‘ترتیب دی۔والحمدللہ میری یہ کتاب نیٹ پر ملتقی لاھل الحدیث یا اردو مجلس فورم میں دیکھی جاسکتی ہے۔بطور مثال التاریخ الکبیر کے درج ذیل ارقام الترجمہ کا مطالعہ کریں،مثلا:۲۷۹،۵۸۰،۹۲۴،۱۰۰۷۔ ۴: حدیث اور راوی پر جرح وتعدیل کے کس امام کا حکم باسند نقل کیا ہے۔ ۵: بعض راویوں کا صرف نام لکھتے ہیں،کچھ بھی تفصیل نہیں لکھتے۔ ۶: تاریخِ کبیر میں امام بخاری کا یہ بھی منہج ہے کہ امام بخاری کسی راوی کی کسی روایت کی بنیاد پر سماع کا تذکرہ کرتے ہیں اور امام بخاری کا مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ بعض روایات میں فلاں راوی سے فلاں راوی کے سماع کا ذکر ملتا ہے۔لیکن یہ سماع واقعۃ ثابت ہے یا نہیں ؟یہ الگ مسئلہ ہے۔ علامہ عبدالرحمن معلمی یمانی رحمہ اللہ جنہیں ’’ذہبی عصر ‘‘کا کما حقہ خطاب دیا گیا، فرماتے
Flag Counter