Maktaba Wahhabi

56 - 128
نے ان دونوں سے روایت کی ہے لہٰذا اصطلاح یہ ہے کہ شعبہ جس وقت مطلق ابوجمرہ کہتے ہیں نصر بن عمران مراد ہوتے ہیں جو کہ جیم سے ہیں اور جس وقت وہ نسب سے مقید کرتے ہیں تو ابو حمزہ حائے مہملہ سے مراد ہوتے ہیں، واللہ اعلم۔ کسی جگہ ماں کا نام باپ کے نام سے مشتبہ ہو جاتا ہے لیکن غوروخوض سے پتہ چلتا ہے کہ ماں کا نام ہے اور باپ کا نام نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں معاذ اور معوذ بن ابنی عفراء آیا ہے اور حضرت معاذ اور معوذرضی اللہ عنہما دونوں عفراء کے بیٹے ہیں اور اس میں عفراء ان کی ماں کا نام ہے اوران کے باپ کا نام حارث ہے۔ بعض روایتوں میں بلالرضی اللہ عنہ بن حمامہ آیا ہے، کہ وہ بلالرضی اللہ عنہ بن رباح ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے، ان کی والدہ کا نام حمامہ ہے۔ نیز صحیحین میں عبداللہ بن بحینہ کا نام آیا ہے، بحینہ ان کی ماں کا نام ہے اور ان کے باپ کا نام مالک ہے اور بعض جگہ اس طرح جمع کر کے کہہ دیا ہے، عبداللہ بن مالک ابن بحینہ۔ ایسی صورت میں ان کی ماں اور ان کے دادا میں اشتباہ ہو جاتا ہے لہٰذا یہ اصول بنالیا گیا ہے کہ مالک اور بحینہ میں ابن کے الف کو قائم رکھتے ہیں اور گرا تے نہیں ہیں تا کہ معلوم رہے کہ یہ عبداللہ کی صفت ہے مالک کی صفت نہیں ہے۔ اسی طرح محمد ابن الحنفیہ میں ہے کہ ان کے والد بزرگوار حضرت علی بن ابی طالبرضی اللہ عنہ ہیں اور حنفیہ ان کی ماں کی طرف نسبت ہے اور ان کا نام خولہ بن جعفر تھا اور جعفر یمامہ اور بنی حنفیہ کے سردار تھے، جس طرح اسماعیل بن عَُلیّہ ہے کہ ان کے باپ کا نام ابراہیم ہے۔ ایک شخص کی نسبت اس کے دادا کی طرف کرنا حدیث کی کتابوں میں بکثرت موجود ہے بلکہ محاورات میں نہایت عام اور مشہور ہے، چنانچہ ’’اناا بن عبدالمطلب‘‘ اس کی نہایت واضح دلیل ہے اور اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ کبھی دادی کی طرف بھی نسبت کر دیتے ہیں، جیسے یعلی بن منیہ… کہ منیہ ان کی دادی کا نام ہے جو اُن کے باپ کی ماں تھیں اور بشیر بن الخصاصیہ بھی اسی طرح سے ہے اور جو دادا سے منسوب ہیں وہ تو بہت ہیں، جیسے ابو عبیدہ بن الجراح کہ ان کے والد کا نام عبداللہ بن الجراح ہے اورا بن جریج کہ ان کا نام عبدالملک بن
Flag Counter