Maktaba Wahhabi

22 - 128
رہتی۔ امام ابوعبداللہ حاکم نیشاپور ی کیا خوب فرماتے ہیں کہ اگر اسناد نہ ہوتی اور محدثین کرام ان کوطلب نہ کرتے اور کثرت سے ذکر نہ کرتے تواسلام کی علامتیں مٹ جاتیں، جھوٹی احادیث گھڑ لی جاتیں، اسناد حدیث کو الٹ پلٹ دیا جاتا اور اس طرح اہل بدعت غالب آجاتے، کیونکہ اگر احادیث کو اسناد سے بے نیاز کر دیا جائے تو وہ بالکل بے بنیاد ہو کر رہ جائیں گی۔[1] رواۃِ حدیث پر کلام اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ صحیح احادیث کو ضعیف سے ممتاز کیا جائے۔ کیا کوئی چاہتا ہے کہ کوئی ظالم، دین کا دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط باتیں منسوب کرے اور ہم اسے کچھ بھی نہ کہیں ؟ کوئی ہمارے باپ کی طرف غلط منسوب کرے ہم اس کا ایکشن لیتے ہیں تب یہ نہیں کہتے کہ غیبت حرام ہے،جانے دو، پھر کیا ہوا؟ ہماری ان گزارشات سے معلوم ہوا کہ رواۃِ حدیث پر جرح غیبت نہیں ہے بلکہ نکمے لوگوں کو ننگا کرنا فرض ہے تاکہ دین محفوظ رہے۔امام احمد بن حنبل درس حدیث دے رہے تھے اور اس میں رواۃ پر جرح و تعدیل کے لحاظ سے بات کررہے تھے تو ایک آدمی ابوتراب نخشبی کہنے لگا:’’ اتق اللّٰه ولا تغتب‘‘اللہ سے ڈرو اور غیبت نہ کرو۔امام احمد کے بیٹے عبداللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا:’’ویحک ھذا نصیحۃ ولا غیبۃ ‘‘افسوس ہے تجھ پر یہ نصیحت ہے نہ کہ غیبت۔[2] جب امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ کے بارے میں اہل بصرہ نے جب تبصرہ کیا کہ آدمی تو بہت اچھے ہیں لیکن یہ جو راویوں پر کرتے ہیں یہ کام اچھا نہیں تو انہوں نے فرمایا:مجھے یہ بات گوارہ ہے کہ قیامت کے دن پوچھا جائے کہ تم نے اس کے بارے میں یہ نقد کیوں کیا ہے ؟لیکن یہ سوال گوارا نہیں ہے کہ اللہ تعالی پوچھے کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بات بیان
Flag Counter