Maktaba Wahhabi

62 - 67
اگرچہ دقیق اور علمی ہے لیکن ہم اس سے ہٹ کر عام فہم بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ارشاد میں ’’روح ‘‘ یہ ہے کہ جواب ہو گا وہ قادر مطلق ہو گا کیونکہ ربوبیت عامہ کے لئے قدرتِ مطلقہ ہونا لازم ہے ورنہ ربوبیت ناقص رہے گی۔ اسی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے’’ یُحْیِ وَ یُمِیْتُ‘‘ کی کلی شکل میں پیش کیا کہ رب وہ ہے جو سارے عالم کے احیاء اور امانت یعنی اس کی بقا و فنا پر قدرتِ کاملہ رکھتا ہو اور دنیاکی ہر چیز کی (چاہے وہ انسان ہو یا حیوان ،نبات ہو یا جماد، علوی ہو یا سفلی)سب چیز کی حیات و فنا ا سکے ہاتھ میں ہو۔ لیکن نمرود ؔنے ایک شخص کو رہا کرکے اور ایک شخص کو قتل کرکے یہ کہا کہ’’ اَنَا اُحْیِ وَ اُمِیْتُ‘‘ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ اس کے دماغ اور اس کے فہم کا امالہ اس کلّی قدرتِ کاملہ کی طرف نہیں ہوا جو جملہ فعلیہ ’’یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ ‘‘کا منشاء ہے اور اللہ کی صفت خاصہ ہے بلکہ اس کا دماغ جزئی ضرر رسانی اور نفع رسانی میں گھر کر رہ گیا اور مغالطہ میں مبتلا ہو گیا تو اس کی فہم کے مطابق اللہ کی قدرت کاملہ اور اس کے قادر مطلق ہونے کو دوسری شکل میں پیش کیا اور کلّی شکل سے نیچے اتر کر نظامِ عالم میں سے صرف ایک نظامِ شمسی کے درو بست کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیا۔ کہ رب وہ ہے کہ جس کا استیلاء (غلبہ) شمسی نظام پر ہے اور جس کے استیلاء کا ہاتھ تمہارے وجود سے پہلے روزانہ آفتاب کو مجبور کرکے مشرق سے نکالتا ہے اگر تم کو رب ہونے کا دعویٰ ہے تو شمسی نظام پر استیلاء کا ثبوت پیش کرو اور اپنے استیلاء کے ہاتھوں شمسی نظام کو اس طرح بدل دو کہ پہلے نظام کے خلاف سمت سے یعنی مغرب سے نکالو۔یہاں پہنچ کر نمرود کی آنکھ کھل گئی کہ رب ہونے کے لئے قدرتِ کاملہ اور استیلاء تمام ضروری ہے اور یہ ہمارے بس سے باہر ہے اور اس خیال کے آتے ہی وہ حیران و ششدر رہ گیا۔
Flag Counter