Maktaba Wahhabi

41 - 67
حل نہ کر سکے۔ البتہ جو قرآن مجید کا طریقہ استدلال ہے وہ ایک اچھوتا اور صاف و سادہ استدلال ہے جس کو بڑے بڑے فلاسفر و حکما ء نے انتہائی غورو فکر کے بعداللہ کے ثبوت میں پیش کیا۔ مثلاً دنیا میں جب ہم کسی چیز کو مرتب باقاعدہ دیکھتے ہیں تو ہم کو یقین ہو جاتا ہے کہ کسی دانش مند نے اسے ترتیب دی ہے اگر کسی جگہ چند چیزیں بے ترتیب دیکھیں تو یہ خیال ہو سکتا ہے کہ آپ سے آپ یہ چیزیں جمع ہو گئیں ہونگی۔ لیکن جب وہ اس خاص ترتیب و سلیقہ سے چنی گئی ہوں کہ ایک ہوشیار صناّع بھی بہ مشکل اس طرح چن سکتا ہو تو یہ خیال کبھی نہیں ہوسکتا کہ آپ سے آپ یہ ترتیب پیدا ہو گئی۔ پس ناممکن ہے کہ نظامِ عالم جو اس قدر باقاعدہ مرتب اور موزوں ہے وہ خود بخود قائم ہو گیا ہو قرآ ن مجید میں اللہ کے وجود پر اسی سے استدلال ہے۔ صُنْعَ اللّٰہِ الَّذِیْ اَتْقَنَ کُلَّ شَيْئٍ اور وَمَا تَرَی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرَی مِنْ فُطُوْرٍ ‘‘ ترجمہ ’’یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر شے کو خوب پختہ طور سے بنایا۔ اللہ کی کاریگری میں تم کو کہیں فرق نظر نہیں آئے گا۔پھر دوبارہ دیکھو کہیں کوئی دراڑ دکھائی دیتی ہے ‘‘(یعنی بالکل کامل اور بے نقص ہے )خلق کل شئی فقدرہ تقدیرا۔(اللہ نے ہر شے کو پیدا کیا پھر اس کا اندازہ معین کیا۔ )یعنی موزوں اور صحیح اندازہ سے مرتب کیا ہے۔ لا تبدیل لخلق اللہ ۔ یعنی اللہ نے ایسے اصول و ضوابط کے ماتحت عالم کو رکھا ہے جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتے۔ اب جو چیز اسطرح کامل مرتب مستمر النظام ہوگی وہ خود بخود پیدا نہیں ہوگی بلکہ کسی صاحبِ قدرت اور صاحبِ اختیار نے پیدا کیا ہو گا۔اور وہی اللہ ہے۔
Flag Counter