Maktaba Wahhabi

50 - 93
شیطان لعین نے اس (مرید)کے دل میں وسوسہ ڈالا کیوں نہ میں بھی یااﷲکہوں جیسا کہ پیر صاحب کہتے ہیں یا ا ﷲکہنے کی دیر تھی کہ ڈوبنے لگا پھر جنید کو پکارا جنید نے کہا ’’وہی کہہ یا جنیدیا جنید ‘‘جب پار لگا تو پوچھا ’’حضرت ! یہ کیا بات ہے؟فرمایا’’اے ناداں ! ابھی جنید تک تو پہنچا نہیں ا ﷲتک رسائی کی ہوس ہے ۔[1]ا ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے بزرگان دین اور اولیاء کرام کا وسیلہ اور واسطہ پکڑنے کا عقیدہ صحیح ہے یا غلط ‘یہ دیکھنے کے لئے ہم کتاب وسنت سے رجوع کریں گے تاکہ معلوم کریں گے کہ شریعت کی عدالت اس بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے ‘پہلے قرآن مجید کی چند آیات ملاحظہ ہوں ۔ 1۔ وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ۔ ترجمہ:تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ (سورہ مومن آیت ۶۰) ۲- وَاِذا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۔ ترجمہ:اے نبی ‘میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔ (سورہ بقرہ‘آیت ۱۸۶) ۳- اِنَّ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ ۔ ترجمہ:میرا رب قریب بھی ہے اور جواب دینے والا بھی ۔ (سورہ ہود آیت ۶۱) مذکورہ بالا آیتوں سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اولاً ۔اﷲتعالیٰ بلا استثناء اپنے تمام بندوں ‘نیکو کاروں یا گنہ گار‘پرہیز گارہوں یا خطا کار ہوں ‘عالم ہوں یا جاہل ‘مرشد ہوں یا مرید ‘امیر ہوں یا غریب‘مرد ہوں یا عورت ‘سب کو یہ حکم دے رہا ہے کہ تم مجھے براہ راست پکارو مجھ ہی سے اپنی حاجتیں اور مرادیں طلب کرو مجھ ہی سے دعائیں اور فریاد کرو۔ ثانیاً۔اﷲتعالیٰ اپنے تمام بندوں کے باکل قریب ہے (اپنے علم اور قدرت کے ساتھ )لہٰذا ہرشخص خوداﷲ کے حضور اپنی درخواستیں او رحاجتیں پیش کرسکتا ہے اس سے اپنا غم اور دکھڑا بیان کرسکتا ہے چاہے تو رات کی
Flag Counter