Maktaba Wahhabi

63 - 93
فقیر تھے ان کے متعلق یہ مشہور تھاکہ اگر بارش نہ ہو تو اس مست آدمی کو پکڑ کر دریا میں پھینک دو تو بارش ہوجائے گی انہیں دریا میں پھینکتے ہی بارش ہوجاتی تھی آج بھی ان کے مزار پر لوگ پانی کے گھڑے بھربھر کرڈالتے ہیں‘‘[1] (۴) حضرت مجدد الف ثانی ---- کے عرس شریف میں شامل ہونے والے پاکستانی وفد کے سربراہ سید افتخار الحسن ممبر صوبائی اسمبلی نے اپنی تقریر میں سرہند کو کعبہ کا درجہ دیتے ہوئے دعوی کیا کہ ’’ہم نقشبندیوں کے لئے مجدد الف ثانی ---- کا روضہ حج کے مقام (بیت اللہ شریف)کا درجہ رکھتا ہے ‘‘[2] صدر مملکت ‘کابینہ کے ارکان ‘فوج کے جرنیل ‘عدلیہ کے جج اور اسمبلیوں کے ممبر سبھی حضرات وطن عزیز کے تعلیمی اداروں کے سند یافتہ اور فارغ التحصیل ہیں ان کے عقیدے اور ایمان کا افلاس پکار پکار کر یہ گواہی دے رہا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے درحقیقت علم کدے نہیں صنم کدے ہیں جہاں توحید کی نہیں شرک کی تعلیم دی جاتی ہے اسلام کی نہیں جہالت کی اشاعت ہورہی ہے جہاں سے روشنی نہیں تاریکی پھیلائی جارہی ہے حکیم الامت علامہ اقبال رحمہاﷲ نے ہمارے تعلیمی اداروں پر کتنا درست تبصرہ فرمایا ہے۔ گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدا لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰه مذکورہ بالا حقائق سے اس تصور کی بھی مکمل نفی ہوجاتی ہے کہ قبر پرستی اور پیر پرستی کے شرک میں صرف ان پڑھ ‘جاہل اور گنوار قسم کے لوگ مبتلا ہوتے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ اس سے محفوظ ہیں۔ ۳۔دین خانقاہی اسلام کے نام پر دین خانقاہی درحقیقت ایک کھلی بغاوت ہے ‘دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف‘عقائد وافکارمیں بھی اور اعمال وافعال میں بھی ‘امر واقعہ یہ ہے کہ دین اسلام کی جتنی رسوائی خانقاہوں ‘مزاروں ‘درباروں اور آستانوں پر ہورہی ہے شاید غیر مسلموں کے مندروں ‘گرجوں اور گردواروں پر بھی نہ ہوتی ہو ‘بزرگوں کی قبروں پر قبے تعمیر کرنا ‘ان کی تزئین وآرائش کرنا ،ان پر چراغاں کرنا ‘پھول چڑھانا ‘انہیں غسل دینا ‘ان پر مجاوری کرنا ‘ان پر نذرونیاز چڑھانا ‘وہاں کھانا اور شیرینی تقسیم کرنا ‘جانور ذبح کرنا ‘وہاں رکوع وسجود کرنا
Flag Counter