Maktaba Wahhabi

27 - 93
نتیجے میں پیدا ہونے والے تصادم کا اصل سبب عقیدۂ توحید ہی تھا ۔ ایک موقع پر قریش مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ افہام وتفہیم کی غرض سے یہ پیش کش کی کہ ایک سال ہم آپ کے معبود کی پوجا کرلیا کریں ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی پوجا کرلیا کریں اس پیش کش کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے پوری سورہ کافرون نازل فرمائی ۔ ﴿ قُلْ یَا اَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَا أَعْبُدُ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْ تُمْ وَلَا أَنْتُمْ عَبِدُوْنَ مَا أَعْبُدُ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنَ ﴾ ترجمہ:’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہو ‘اے کافرو! میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتاہوں اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے‘اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین۔‘‘ (سورۃ کافرون آیت: ۱-۶) کفارمکہ کی پیش کش اور اس کا جواب دونوں اس بات ی کھلی دلیل ہیں کہ فریقین میں نکتہ اختلاف صرف عقیدۂ توحید تھا جس پر افہام تفہیم سے دوٹوک انکار کردیا گیا ۔ ایک دوسرے موقع پر قریش مکہ کا ایک وفد جناب ابوطالب کے پاس آیا اور کہا کہ آپ اپنے بھتیجے (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم )سے کہیں کہ وہ ہمیں ہمارے دین پر چھوڑ دے ہم اس کو اس کے دین پر چھوڑ دیتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کر ارشاد فرمایا ’’اگر میں تمہارے سامنے ایک ایسی بات پیش کروں جس کے آپ لوگ قائل ہوجائیں تو عرب کے بادشاہ بن جاؤ اور عجم تمہارے زیر نگیں آجائے تو پھر آپ حضرات کی کیا رائے ہوگی ؟‘‘ابوجہل نے کہا’’اچھا ‘بتاؤکیا بات ہے ؟تمہارے باپ کی قسم ایسی ایک بات تو کیا دس باتیں بھی کہو تو ہم ماننے کے لئے تیارہیں ۔‘‘آپ نے فرمایا ’’آپ لوگ لَااِلٰــہَ اِلاَّااللّٰه کہیں اوراﷲتعالیٰ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دیں ‘‘اس پر مشرکین نے کہا ’’اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )تم یہ چاہتے ہو کہ سارے معبودوں کی جگہ بس ایک ہی معبود بناڈالیں واقعی تمہارا معاملہ بڑا عجیب ہے ۔‘‘ غور فرمائیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سرداران قریش سے گفتگو میں جو بات باعث نزاع تھی وہ تھی صرف
Flag Counter