Maktaba Wahhabi

71 - 234
اور وہ ایسے لوگ جو قتال و جہاد کے لیے حاضر اور موجود رہے، قتال و جنگ کریں یا نہ کریں، اور غنیمت کا مال تقسیم کرنے میں نہ کسی کی ریاست و حکومت سے ڈرنا چاہیے نہ خاندان و نسب کی افضلیت سے مرعوب ہونا چاہیے، اور پورے عدل و انصاف سے تقسیم کر دینا چاہیے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کیا کرتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے دوسروں کے مقابلہ میں اپنے﴿آپ﴾ کو افضل وا ولیٰ سمجھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ھَلْ تُنْصَرُوْنَ وَ تُرْزَقُوْنَ اِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ تم لوگوں کو نصرت اور رزق تمہارے کمزوروں کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ مسند احمد میں سیدنا سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یارسول اللہ ایک آدمی قوم کی حمایت و سرداری کی حیثیت سے لڑ رہا ہے تو اس کا حصہ دوسروں کے برابر ہی ہونا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ثَکِلُتْکَ اُمُّکَ اِبْنَ اُمِّ سَعْدٍ وَہَلْ تُرْزَقُوْنَ وَ تُنْصَرُوْنَ اِلّا بِضُعَفَائِکُمْ اے ابن ام سعد! تمہاری ماں تم پر روئے کیا تم کو رزق اور نصرت تمہارے کمزوروں کی وجہ سے نہیں دی جاتی؟ ﴿اس سے ثابت ہوا کہ کمانڈر انچیف اور دیگر فوجی افسران و ممبران اور عام فوجی کا حصہ ایک جیسا ہے لیکن کیا ہمارے ملک میں فوجی کی تنخواہ کم اور افسر کی زیادہ نہیں؟ اگر ہے تو وہ اللہ کو کیا جواب دیں گے﴾ چنانچہ خلافت بنی اُمیہ اور خلافت بنی عباس میں ما لِ غنیمت غا نمین، غنیمت حاصل کرنے والوں پر تقسیم ہوتا رہا۔ جبکہ مسلمان روم اور ترکوں اور بربر کے خلاف جنگ و جہاد کرتے تھے، ہاں امام﴿حاکمِ وقت﴾ کے لیے یہ جائز ہے کہ﴿جو مجاہد، فوجی یا افسر﴾ کوئی خطرناک اور اہم کام انجام دیدے، مثلاً بلند قلعے پر چڑھ گیا، اور دشمن کو شکست ہوئی، اس کے مثل کوئی دوسرا کام کیا تو اس کو نُفل یعنی زیادہ دیدے، کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء نے نُفل دیا تھا، چنانچہ سریۂ بدایہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس کے علاوہ ایک چوتھائی اور دیا تھا، اور غزوۂ رجفہ میں خمس کے بعد ایک تہائی دیا تھا۔ ہاں اس اضافہ کے متعلق علماء کرام کے اقوال مختلف ہیں، بعض کہتے ہیں: یہ زیادتی خمس کے مال
Flag Counter