Maktaba Wahhabi

222 - 234
باب 26(Chapter)کے مضامین اموال کا فیصلہ عدل و انصاف سے کیا جائے، معاملات میں عدل و انصاف ہی دنیا کے امن و چین کا کفیل ہے، دنیا ور آخرت اسی سے درست ہوتی ہے۔ اموال کا فیصلہ عدل و انصاف سے کیا جائے، جیسا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے، مثلاً ترکہ، وارثوں پر کتاب و سنت کے مطابق تقسیم کیا جائے، گو اس کے بعض مسائل میں اختلاف ہے، اسی طرح معاملات میں لین دین، مزدوری و ٹھیکہ، وکالات، مشارکات، تحفے اوقاف وصیتوں وغیرہ میں عدل و انصاف واجب ہے، اور ان معاملات میں جن میں عقود اور قبضہ شرط ہے، عدل و انصاف واجب ہے، اس لیے کہ عدل و انصاف ہی سے دنیا و جہان کا(قیام و) قوام ہے، اس کے بغیر دنیا و آخرت درست ہی نہیں ہو سکی، ان چیزوں میں عدل و انصاف ہر عقلمند سمجھتا ہے، اور مثلاً خریدار پر واجب ہے کہ وہ چیز کی قیمت فوراً ادا کر دے اور بیچنے والے پر واجب ہے کہ مال خریدار کے حوالہ کر دے، اور مثلاً ناپ و تول میں کمی بیشی کرنا قطعاً حرام ہے، قرض ادا کرنا، جس سے قرض لیا اس کا شکر وار تعریف کرنی واجب ہے، عام معاملات جن کی کتاب و سنت نے ممانعت کی ہے وہ ہیں جن میں عدل و انصاف نہیں ہو سکتا، اور چھوٹا بڑا، کم زیادہ ظلم ہوتا ہو، مثلاً باطل کے ذریعہ مال لینا جیسے سوداور جوا۔ سود کی تمام صورتیں جوئے کی تمام اقسام جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، حرام ہیں مثلاً بیع غرر(دھوکہ سے مال بیچنا)۔ بیع الطیر(پرندہ اڑ رہا ہو، اس کو بیچنا)، مچھلی پانی کے اندر ہو، اُسے بیچنا، میعاد مقرر نہ کرنا اور بیچنا، بیع المصراط، بیع الملامسہ، بیع منابذہ، بیع مزابنہ، بیع محاقلہ، اور خراب اشیاء کا بیچنا، کچے پھل، ان کو بیچنا، فاسد شرکت کرنی، اور وہ تمام معاملات جن سے مسلمانوں کے اندر نزاع ممکن ہے اور جن میں کچھ نہ کچھ خرابی ہو، یا شبہ ہو، یا وہ عقد جو کچھ لوگ صحیح اور عدل سمجھتے ہوں۔ اور کچھ لوگ ظلم و جور سمجھتے ہوں۔ ان کا فاسد ہونا واجب و ضروری ہے۔ ان سے بچنا ضروری ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
Flag Counter