Maktaba Wahhabi

90 - 234
باب 9(Chapter)کے مضامین مال کی تقسیم اہم فالاہم کے اصول کے مطابق ہونی چاہئے۔ اہلِ نصرت و جہاد سب سے زیا د ہ مستحق ہیں۔ مال فئے میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا یہ تمام مصالح مسلمین میں خرچ کیا جائے یا خاص مجاہدین کے لیے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مؤلفتہ القلوب کو بھی فئے سے دیا کرتے تھے’’اَنْ تُؤَدُّوا الْامَانَاتِ اِلٰیٓ اَھْلِھَا‘‘(نساء:58) کی صحیح راہ ۔ مال کے مصارف اور اس کی تقسیم مسلمانوں کے مصالح میں ہونی چاہئے۔ اور اہم فالاہم کے اصول کو مدنظر رکھنا واجب اور ضروری ہے، مثلاً عام مسلمانوں کو عمومی نفع اور فائدہ پہنچے، انہی لوگو ں میں اربابِ نصرت و جہاد بھی ہیں، اور مال فئے میں سب سے زیادہ مستحق مجاہدین اسلام ہیں، کیونکہ مجاہدین کے بغیر مال فئے کا حاصل ہونا نا ممکن ہے، انہی مجاہدین کے ذریعہ ہی یہ مال وصول ہو تا ہے، اور اسی لیے فقہاء اسلام نے اختلاف کیا ہے کہ مال فئے انہی مجاہدین پر صرف کیا جائے یا یہ کہ ہر قسم کے مصالح﴿اصلاحی کام﴾ میں صرف کیا جائے؟ مال فئے کے علاوہ جس قدر بھی مال ہے اس میں تمام مسلمان، اور مسلمانوں کے تمام مصالح شامل ہیں، اور اس میں سب کا اتفاق ہے۔ اور یہ کہ صدقات، زکوٰۃ، اور مالِ غنیمت کو مخصوص کر دیا ہے، اور مستحقین و حقدار یہ لوگ ہیں۔ عاملین﴿اکٹھا کرنے والے﴾، صاحب ولایت﴿حکام﴾ وغیرہ، مثلاً والیان امر﴿گورنر و مجاز افسر﴾۔ قضاۃ؍جج، علماء اور وہ لوگ جو مال جمع کرنے، اس کی حفاظت اور تقسیم وغیرہ جن کے سپرد ہے، یہاں تک کہ نماز کے امام اور مسجدوں کے مؤذن وغیرہ بھی ان میں شامل ہیں، اسی طرح وہ اُجرت بھی اس میں داخل ہے جس سے عوام کو فائدہ پہنچتا ہے، مثلاً سرحدوں پر مورچے باندھنا، اسلحہ وغیرہ کے لیے خرچ کرنا۔ اور وہ عمارتیں بنوانا جن کی تعمیر ضروری ہے، لوگوں کے لیے راستے درست و ہموار کرنا، چھوٹے بڑے پل تعمیر کرنا، پانی کے راستے ہموار کرنا، نہریں ڈیم وغیرہ بنوانا، یہ تما م چیزیں مال کے مصارف میں شامل ہیں۔ صاحب ضرورت اور مستحق لوگ بھی اس میں شامل ہیں۔
Flag Counter