Maktaba Wahhabi

72 - 234
میں سے دی جائے، اور بعض کہتے ہیں، خمس کے پانچویں حصہ میں سے دی جائے، تا کہ بعض غانمین کو بعض پر فضیلت و برتری نہ ہو سکے، اور صحیح یہ ہے کہ خمس کے چوتھے حصہ میں سے زیادتی دی جائے۔ گو بعض لوگ افضل و برتر ہی کیوں نہ ہوں، لیکن یہ اضافہ کسی دینی مصلحت کی بنا پر ہونا چاہئے، خواہش نفس کو اس میں دخل نہ ہو۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مرتبہ مصلحت کی بنا پر زیادہ دیا ہے۔ اور یہی قول فقہاء شام، امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ کا ہے، اور اسی قول کے مطابق کہا گیا ہے کہ بلاکسی چوتھائی اور تہائی کے دیا جائے۔ اس سے زیادہ﴿دینے﴾ کے لیے شرط لگائی جائے، مثلاً امام﴿حاکم وقت﴾ یا سپہ سالارِ لشکر یہ کہے کہ جو شخص فلاںقلعہ سر کرے گا، یا جو فلاں کا سر لائے گا اُس کو یہ یہ﴿انعام﴾ دیا جائے گا۔ اور بعض کہتے ہیں ایک ثلث سے زیادہ نفل(یعنی اضافہ) نہ دیا جائے، ہاں شرط لگا کر دیا جا سکتا ہے، یہ دونوں قول امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کے ہیں۔ اور اسی طرح صحیح قول کے مطابق امام کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ یہ کہے: جس شخص نے جو چیز لے لی وہ اس کی ہے، جیسا کہ غزوۂ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا، لیکن یہ اس وقت جبکہ مصلحت راجح ہو اور فساد کی اُمید کم ہو۔ جب امام﴿حاکمِ وقت یا سپہ سالار﴾ مالِ غنیمت جمع کرے یا اُسے تقسیم کرے تو کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس میں کسی قسم کا غبن کرے، اور جو شخص غبن کرے گا قیامت کے دن اس کی پوچھ گچھ ہو گی، کیونکہ غلول اور غبن بھی خیانت ہے، نیز مال غنیمت میں دھوکہ و فراڈ اور غارتگری بھی جائز نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روکا ہے۔ جب امام﴿حاکمِ وقت یا سپہ سالار﴾ نے مال غنیمت تقسیم ہو نے سے پہلے عام اجازت دے دی کہ جس کے ہاتھ لگے وہ اس کا ہے، تو اس صورت میں خمس ادا کرنے کے بعد ایسا کرنا حلال و جائز ہے، اور اِذن و اِجازت کے لیے کوئی خاص الفاظ نہیں ہیں۔ بلکہ جس طرح بھی اور جس طور پر بھی اِذن و اجازت دی جائے وہ اِذن و اجازت ہے، اور جب عام اِذن و اجازت نہ دی گئی ہو، اور اس صورت میں کوئی شخص کچھ لے لے تو جو قسمت اور حصہ میں آئے اتنی ہی مقدار عدل و انصاف کو ملحوظ رکھتے
Flag Counter