Maktaba Wahhabi

224 - 234
باب 27(Chapter)کے مضامین امیر، ولی الامر، حاکم کے لیے مشورہ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا: وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ۔ اور جو لوگ مشورہ لیتے ہیں ان کی اللہ تعالیٰ نے تعریف کی ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔(شوریٰ:38) ولی الامر کے لیے ضروری ہے کہ وہ مشورہ لیا کرے، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم فرمایا ہے: فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰه اِنَّ اللّٰه یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ (آل عمران:159) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قصور معاف کر دو اور اللہ سے بھی ان کے گناہوں کی معافی کی درخواست کرو، اور معاملات صلح و جنگ میں ان کو شریک مشورہ کر لیا کرو۔ پھر مشورے کے بعد تمہارے دل میں ایک فیصلہ پختہ ہو جائے تو بھروسا اللہ تعالیٰ پر ہی رکھنا، جو لوگ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں، اللہ ان کو دوست رکھتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: لَمْ یَکُنْ اَحدًا اَکْثَرَ مُشَاوَرَۃً لِّاَصْحَابِہٖ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کی تألیف قلبی کی غرض سے مشورہ لینے کا حکم دیا گیا ہے، اور اس غرض سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی قتداء کی جائے۔ اور جس امر کے متعلق وحی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، مثلاً حرب و جنگ وغیرہ اور جزئی امور میں لوگوں کی رائے اور مشورہ لیا جائے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ لیا کرتے تھے تو غیر بدرجہ اولیٰ مشورہ کے محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مشورہ کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے۔ فرماتا ہے:
Flag Counter