ان اکابر ائمہ کرام کی آراء نقل کرنے سے حدیث کا صحیح معنی یہ ہے کہ وہ خواہشات جو گمراہ کرنے کا سبب بنتی ہیں اور وہ شبہات جو انسان کو واضح راستے سے بھٹکانے کا ذریعہ بنتی ہیں ان سے نجاتر کا طریقہ وہی ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے سنت رسول کو سمجھنے کے لئے اپنایا تھا۔ان صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے سنتوں کا واف حصہ لیا۔اور اس معاملے میں سب سے آگے رہے،اور مقاصد کو حاصل کیا اور بعد میں آنے والےائمہ بھی ان کے طریقے کو اپنانے کی خواہش رکھتے تھے۔اس لئے کہ یہ(صحابہ)ہدایت پر قائم تھے۔علم اپنانے والے تھے روشن نظرتھے۔جو ان کے طریقے پر چلا وہ خوش نصیب ہے اور جو اس طریقے کو چھوڑ کر دائیں بائیں راستے تلاش کرنے لگا وہ بد نصیب گمراہ ہے۔وہ حیرت و گمراہی کے میدان میں سرگرداں رہے گا۔وہ خواہشات کے سراب کو پانی سمجھتا ہے۔حالانکہ یہ صرف شیطان کے جال میں پھنس کر ذلیل و رسوا ہوگا۔ یہ بھی ہمیں سوچنا چاہیئے کہ ایسی کونسی بھلائی تھی جو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے نہیں اپنائی؟ ہدایت کو وہ کونسا راستہ تھا جس پر وہ نہیں چلے؟ انہوں نے حق کو اس کے میٹھے سر چشمے(محمدصلی اللہ علیہ وسلم)سے حاصل کیا۔انہوں نے اسلامی اصولوں کی تائید کی انہیں ایسا مضبوط کیا کہ کیس کے لئے بولنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔انہوں نے نبوت کے در سے جو کچھ حاصل کیا تھا وہ خالص حالت میں بلاکم و کاست تابعین تک دیانتداری سے منتقل کیا اور ان کی سند اس دین میں محمد عن جبریل عن رب العزت تھی۔جو سب سے عالی سند ہے،ان کے دلوں میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر بہت زیادہ تھی وہ اس بات کو بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے کہ اپنی خواہشات کو سنت پر مقدم کر دیں یا سنتوں میں اپنی یا کسی اور کی رائے کو شامل کریں،یہ ہو بھی کیسے سکتا تھا انہیں تو عادت ہی سنتوں پر عمل کرنے اور اس کی حفاظت کی تھی۔جب رسول |