شمس الحق عظیم آبادی نے عون المعبود۳۱۶/۱۱ میں قاری سے نقل کیا ہے کہ دخن اصل میں کدورت(میلے پن)کو کہتے ہیں اور مائل بہ سیاہی رنگ کو کہا جاتا ہے۔اس حدیث میں اس بات کا اشارہ ہے کہ خیر ہوگا مگر اس میں کچھ ملاوٹ فساد کی ہوگی۔‘‘[1] میں کہتا ہوں کہ ان شروحات سے دو باتیں واضح ہو کر سامنے آتی ہیں۔(۱)کہ یہ مرحلہ ایسا نہیں ہوگا کہ اس میں خالص خیر ہو بلکہ اس میں گدلا پن ہوگاجو خیر کے شفافیت کو مکدر کر ے گا اور اس کا ذائقہ کرکرا کر دے گا۔(۲)یہ کدورت اور گدلاپن ایسا ہو گا جو دلوں کو بگاڑ دے گا اور انہیں کمزور کر دے گا کہ اس میں شبہات داخل ہوں گے اور اسے وہ بیماریاں لاحق ہوں گی جو قوموں کو لاحق ہوتی ہیں۔ہمیں ضرورت نہیں ہے کہ ہم ان شروحات کی وضاحت یا ان میں سے صحیح کو غلط سے الگ کرتے رہیں اس لئے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ باتیں ایسی بتائیں ہیں جن سے رہنمائی مل جاتی ہے۔مثلاً ۱۔بدعتیں: یہ خرابی انحراف ہے جو اس نبوی منہج کو لاحق ہوتا ہے جو حق منہج ہے اور خالص خیر کے مرحلے کی قیادت کرتا ہے۔یہ بدعت اس منہج میں بگاڑ پیدا کرتا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دخن کی وضاحت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں ان الفاظ سے کی تھی"قوم یستنون بغیر سنتی ویہدون بغیر ھدیی تعرف منھم وتنکر"،یعنی:’’ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنتوں کے بجائے دوسرے طریقوں کو اپنائیں گے۔میری ہدایت کے بجائے کوئی اور ہدایت اپنائیں گے،ان میں سے کسی کو تم جانتے ہو گے کسی کونہیں جانتے ہو گے۔‘‘ یہ ہے اصل پریشانی، |