بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم تقديم إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ،نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ،وَنَسْتِغْفِرُهُ،وَ نَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا،وَمِنْ سِيِّئَات~ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ،وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ،وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ،وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ امام بعد! مختلف اور الگ الگ راستوں پر چلنے کی وجہ سے امت اسلامیہ ہلاکت و تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔اور اب یہ امت ایسی پریشان کن زندگی گذار رہی ہے کہ اسلامی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اگرچہ اسلام کو بہت سی جنگوں کا سامنا رہا ہے۔مگر ایسی حالت کبھی نہ تھی جو اب ہے کہ اس پر مسلسل اور پے درپے کمزوری اور اللہ کی مضبوط و قابل بھروسہ مدد سے دوری کی پریشانیاں آرہی ہیں۔پہلے ایسا ہوتا تھا کہ مسلمانوں کو کبھی اپنے وطن اور گھر بار کو چھوڑنا پڑتا تھا یا اپنے اموال سےمحروم ہو جاتے تھے یا مصائب و آلام میں گرفتار ہو جاتے تھے ڈر خوف،گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں زندگی گذارنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔لیکن ایسے حالات میں بھی اللہ کے طریقوں اور حکمتوں سے واقف لوگ اس بات میں شک نہیں کرتے تھے کہ بالآخر ان مصائب و آلام کا رخ دشمن کی طرف ہی ہوگا ان حالات میں ان کو یہ احساس ہوتا تھا کہ ہم کو اللہ نے اسلام کی وجہ سے عزت دی تھی اور جب ہم اسلام کے علاوہ کسی اور جگہ عزت تلاش کریں گے تو وہ اللہ ہمیں رسوا کرے گا۔یہ سوچ کر وہ فی الفور اپنا محاسبہ کرتے تھے اور اپنی غلطی کا ادراک کر لیتے تھے اور جو خرابیا ں میں ہوتی تھی وہ معلوم کر لیتے تھے اور پھر بہت تیزی سے اپنے دین(اسلام)کی طرف پلٹ آتے تھے اس پر عمل شروع کر دیتے تھے،اور پھر اللہ ان کو اس ذلت و رسوائی سے نکال دیتا تھا۔ان کا رعب اور شان و شوکت واپس آجاتی تھی۔مگر جب اسلام میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے جو یہ نہیں جانتے تھے کہ جاہلیت کیا ہے؟ تو اس کے بعداسلام کا کڑا ٹوٹ |