Maktaba Wahhabi

327 - 346
علم کا اٹھالیا جانا۔ نہ کہ اُس کے وجود کا ہی بالکل اٹھالیا جانا۔(کہ اب قیامت تک وہ دنیا میں آئے گی ہی نہیں۔)‘‘[1] اور اگر اس کے وجود کو ہی اٹھالیا جانا مراد ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جستجو اور تلاش کا حکم ہی نہ دیتے۔ جن علماء کرام نے لیلۃ القدر کے وجود(ہر سال رمضان المبارک میں)اور اس کے قیامت تک ہمیشہ آتے رہنے کو اہمیت دی ہے انہوں نے باقاعدہ اس ضمن میں ایک دوسرے کی مدد کرنے والی احادیث اور اللہ کے صالح بندوں کا اس رات کو پالینے والے منتشر واقعات کو جمع بھی کردیا ہے۔ [2] اس ضمن میں حاصل کلام یہ ہے کہ لیلۃ القدر میں بے شمار گنا کرکے اجر و انعام کا دیا جانا۔ اُمت محمدیہ علی صاحبہا التحیۃ والسلام پر اللہ ربّ العالمین کی طرف سے خاص انعام ہے اور یہ رات قیامت تک باقی ہے۔ سیّدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس رات کے اٹھالیے جانے کے بارے میں اور اس کے ہمیشہ رہنے کے بارے میں یوں سوال کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ خود بتلاتے ہیں: ’’ میں نے دریافت کیا: اے اللہ کے پیغمبر! جب تک انبیاء دنیا
Flag Counter