Maktaba Wahhabi

106 - 114
کے قریب پہنچ ہی جائیں گے،تو بھئی اس کھینچا تانی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ احادیث میں کندھوں اور کانوں تک ہاتھ اٹھانے کا ذکرآیا ہے،یہی سنّت ہے،اور بِلا تفریق ِمرد وزن جو جس طریقہ کو اختیار کر لے جائز ہے،اور اسی میں ہی برکت بھی ہے،البتہ بعض سلف صالحین [مَردوں]کا دستور رہا ہے کہ وہ سینے تک ہاتھ اٹھاتے تھے،جیسا کہ ابو داؤد میں حضرت ابن ِعمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ سینے تک ہاتھ اٹھاتے تھے،اور ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ حضرت ابن ِعمر رضی اللہ عنہما کہاں تک ہاتھ اٹھاتے تھے؟اُس مقام پر اشارہ کر کے بتائیے تو : (فَأَشَارَاِلیٰ الثَّدْیَیْنِ أَوْأَسْفَلَ مِنْہُ)۔ ‘’انھوں نے چھاتی [سینے ]کی طرف اشارہ کیا یا اس سے نیچے کی طرف۔‘‘ ان کا یہ عمل چاروں جگہ یعنی تکبیرِ تحریمہ،رکوع جاتے،رکوع سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کے لئے اٹھتے اور ہاتھ باندھتے وقت تھا،البتہ ابو داؤد میں ہی یہ الفاظ بھی ہیں : ((وَاِذَا قَامَ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ یَرْفَعُہُمَا اِلیٰ ثَدْیَیْہِ))۔ [1] ’’اور جب وہ تیسری رکعت کیلیٔے اٹھتے تواپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے پستانوں [یعنی سینے]تک اٹھاتے۔‘‘ صحیح احادیث کے مقابلہ میں بھلا اس اور ایسے ہی دیگر آثار کی کیا حیثیّت ہو گی؟یہ تو اس مرفوع روایت کے بارے میں ہوا،جبکہ دوسری کوئی مرفوع روایت نہیں لائی گئی بعض آثار ہیں،جن کے بر عکس صحیح احادیث شریفہ کا اطلاق ہوتا ہے،جو ہم نے ذکر کی ہیں،ایسے ہی صحیح سند والا حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا اثر بھی ہے،اس طرح اِن آثار کی کوئی
Flag Counter