Maktaba Wahhabi

103 - 114
کَمَا عَرَفْتَ)۔ [1] ’’اور یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ رفع یدین ایسی سنّت ہے جس میں مرد و زن دونوں مشترک ہیں،اور ایسی کوئی حدیث وارد و ثابت نہیں ہے جو ان کے ما بین اس معاملہ میں فرق کرنے پر دلالت کرتی ہو،اور نہ ہی ایسی کوئی حدیث ملتی ہے جو مرد و زن کے ما بین ہاتھ اٹھانے کے فرق پر دلالت کرتی ہو،اوراحناف سے مروی ہے کہ مرد کانوں تک اور عورت کندھوں تک ہاتھ اٹھائے،کیونکہ یہ عورت کے لیٔے زیادہ ساترہے،لیکن [ان کے پاس]اس کی کوئی دلیل نہیں ہے،جیسا کہ تفصیل ذکر کی جاچکی ہے۔‘‘ نتیجہ : اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ہدایہ (۱/۶۴)،کبری (ص:۳۰۰)اور شرح وقایہ (ص:۷۲ بحوالہ نماز مسنون صوفی عبد الحمید سواتی ص:۳۱۶)،شرح وقایہ،کنزالدقائق،ردّ ا لمحتار یعنی فتاویٰ شامی،فتاویٰ قاضی خان،فتاویٰ عالمگیری۔[2]اور السعایہ حاشیہ وشرح وقایہ[3]وغیرہ میں جو عورت کو صرف کندھوں تک ہاتھ اٹھانے کا مشورہ دیاگیا ہے،اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے،اور دلیل کی عدم موجودگی کی وجہ ہی ہے کہ اس مشورے کے باوجود ان کتب میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگرچہ کانوں تک بھی عورت کا ہاتھوں کو اٹھانا جائز ہے۔ [4] یہی صحیح بھی ہے،اور پہلا مشورہ ہمارے نزدیک ایک بہت بڑی جسارت ہے،کیونکہ جب قرآن و حدیث اس معاملہ میں خاموش ہیں تو پھر کسی فقیہہ و مجتہد یا مفتی و عالم ِدین کو اس بات کا کہاں حق پہنچتاہے کہ وہ از خود ایسی من مانی تفریق کا دین
Flag Counter