Maktaba Wahhabi

77 - 198
پر کوئی فوقیت کسی کو حاصل نہیں اور یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا۔ اسلام نے انسانوں کو حقوق میں برابر کر دیا، اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مسلسل طرزِ عمل ہے۔ جب غزوۂ خندق کے موقع پر مسلمان خندق کھود رہے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے سر پر ٹوکری اٹھاتے تھے۔ جب مسلمانوں نے اعتراض کیا تو فرمایا: ’’کیا میں تمہارا بادشاہ بن کر بیکار رہوں؟‘‘ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی ایک قطار ٹھیک کر رہے تھے۔ چھڑی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی، ایک مسلمان کی پیٹھ پر لگ گئی۔ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں قصاص لوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ کو ننگا کیا اور فرمایا لے لو۔ اس نے بڑھ کر مہرِ نبوت چوم لی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو پیٹھ پیش کر ہی دی تھی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چوری کے ایک مقدمہ کے متعلق ردِ عمل ہے۔ ایک اونچے گھرانے کی عورت نے چوری کی۔ جو لوگ اس کو حد سے بچانا چاہتے تھے انہوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو سفارشی بنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ تو اللہ کی حدود میں سفارش کرتا ہے؟ اس پر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا ’’یا رسول اللہ مجھے معاف فرمائیے مجھ سے خطا ہوئی۔‘‘ پھر حضور نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا۔ ’’لوگو تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اس سے درگزر کرتے۔ اور جب کوئی کمزور آدمی ایسے فعل کا مرتکب ہوتا۔ تو اس کو سزا دیتے۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اگر فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی یہ جرم وارد ہوتا تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالتا۔‘‘ برابری کی جو مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اگر خدانخواستہ فی الواقع حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کسی چوری کی مرتکب ہوتیں۔ تو ساری امت کہتی کہ ان کو ایسی سزا نہ دی جائے بلکہ امت کے کسی فرد کی جرأت ہی نہ ہوتی کہ ایسی سزا کا ذکر کرے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ فرما رہے تھے اس میں کوئی مبالغہ نہ تھا۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہی کرتے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانِ مبارک سے فرمایا۔ یہ درست ہے کہ ایسا واقع ہونے کا کوئی احتمال نہ تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال بیان کر کے انسانوں کی قطعی برابری پر مہر ثبت کر دی۔ اسی طرزِ عمل کا نتیجہ وہ برابری تھ جس کا ہم نے بعد میں مشاہدہ کیا۔ ہمارے خلیفہ یا بادشاہ نے کبھی قاضی کے سامنے پیش ہونے پر اعتراض نہیں کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پیش ہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ پیش ہوئے۔ خلیفہ مامون الرشید، سلطان مراد، محمد بن تغلق وغیرہ پیش ہوتے رہے۔ جہاں تک امیر کے سزا سے بچنے کا تعلق ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو بھی سزا دی حالانکہ یہ سزا مصر میں بھی، ان کو دی جا چکی تھی صرف وہ سزا لوگوں کے سامنے نہ دی گئی تھی۔ اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق شریعت کا منشا پورا نہ ہوا تھا۔ اسی سزا کے نتیجہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیٹا جاں بحق ہو گیا۔ اسی طرح حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کو بھی مصر سے بلوایا جب ان کو معلوم ہوا کہ ان کو سزا نہیں دی گئی۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے
Flag Counter