مطالعہ و تالیفِ سیرت کے چند پہلو ابو سلمان شاہجہانپوریؔ مطالعۂ سیرت کی متعدد ضرورتیں، مختلف نقطۂ نظر اور ان کی اہمیتیں ہیں۔ سب سے پہلی ضرورت تو مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح کے نقطۂ نظر سے ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَةٍ حَسَنَةٌ (مسلمانو!) تمہارے لئے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی) میں بہترین نمونہ ہے۔ اور قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) آپ مسلمانوں سے فرما دیجئے کہ اگر تمہیں اللہ سے محبت ہے تو میری اتباع کرو۔ کوئی مسلمان مسلمان کی حیثیت سے اسوۂ حسنہ سے صرفِ نظر اور اتباعِ نبوی کی فکر سے اپنے قلب و دماغ کو بے نیاز نہیں کر سکتا۔ قرآنِ حکیم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مسلمانوں کے آئینِ حکمرانی، دستورِ مملکت اور لائحہ اعمالِ حیات کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ گرامی مجسم قرآن تھا جو مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، طائف وغیرہ کے کوچہ و بازار میں کامل تئیس سال تک سیر و گردش اور نقل و حرکت میں رہا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے سائل سے پوچھا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا اس نے جواب دیا، ضرور پڑھا ہے، انہوں نے فرمایا کان خلقه القراٰن جان لینا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ وہی سب کچھ ہیں جو قرآن میں ہے۔ اخلاق یا لق کا لفظ آجانے سے کسی کو اس محدود دائرے میں سوچنا نہیں شروع کر دینا چاہئے جو اردو میں اس لفظ کے معنی کے بارے میں بنتا ہے۔ اخلاق کا تعیّن بول چال یا تواضع یا استقبال یا نشست و برخاست کے چند معلوم ضابطوں تک محدود نہیں۔ اخلاق کا مفہوم انسان کی پوری زندگی اور اس کے تمام اعمال پر محیط ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم میں سے ایک جامع کلمہ وہ ہے جس میں بعثتِ نبوی کا مقصد ہی اخلاق کی تکمیل و اتمام بتایا |