ہستئ بے قرار (اِک ولولۂ تازہ دیا جس نے دلوں کو ) عاصم نعمانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے اس پہلو پر کئی تقریریں کر چکا ہوں کہ بھولی بھٹکی اور دکھی انسانیت کو اللہ تعالیٰ کے دامنِ رحمت سے وابستہ کرنے، حق و صداقت اور عدل و مساوات کا بول بالا کرنے، نیکی کو پروان چڑھانے اور بدی، ظلم و ستم اور سرکشی کا سرنگوں کرنے کے معاملے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر بے قرار اور بے چین رہے۔ چند دن ہوئے کہ روزنامہ ’دعوت‘۔ دہلی (بھارت) کا ایک پرانا ’رحمتِ صلی اللہ علیہ وسلم عالم نمبر‘ نظر سے گزرا۔ اس میں مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کا ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا جس سے حسنِ توارد کی ایک عمدہ مثال سامنے آئی۔ سیرت کے جس پہلو کو میں کئی برس سے مختلف تقاریر میں بیان کرتا چلا آرہا ہوں، جناب یوسف صاحب کا مضمون اسی پہلو کو واضح کرتا ہے۔ اب جب کہ ’محدث‘ لاہور، کے لئے سیرت پر لکھنے کا حکم ملا ہے تو میں اسی مضمون کو بنیاد بنا کر کچھ ترمیم و اضافہ اور اپنی ترتیب کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کرتے وقت جو چیز ایک قاری کے فکر و احساس پر نمایاں طور پر اثر ڈالتی ہے اور اپنی طرف کھینچتی ہے، وہ رحمتِ عالم کی ’بے قراری‘ ہے۔ان نادان انسانوں کے لئے بے قراری جو دین و اخلاق کی بلندیوں سے کفر و معصیت کے عمیق ترین گڑھوں میں جا گرتے ہیں اور یوں ‘احسنِ تقویم‘ کی بلندی سے ’اسفل السافلین‘ کی پستی میں لڑھکتے نظر آتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بے قراری اس بے قراری سے کہیں زیادہ ہے جو ہم کسی دنیوی تباہی یا جسمانی حادثات پر محسوس کرتے ہیں۔ سیرت کے اس پہلو کا مطالعہ کرتے وقت ایک ایسی ہستی کا تصور بندھتا ہے جو سراپا بے قراری اور اضطراب ہے، جسے صرف ایک ہی غم ہے اور ایک ہی فکر لاحق ہے کہ خدا کے نادان بندے جہنم کی ہولناک تباہی سے بچ جائیں اور کفر و شرک کی راہ سے ہٹ کر ہدایت کی سیدھی راہ |