Maktaba Wahhabi

27 - 198
مقامِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ مسیحیّت کی نظر میں محمد امین سابق عمانوایل مہنگا پادری جنابِ موسیٰ علیہ السلام کی آخری وصیت میں بشارت۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آمد۔ وَالتِّیْنِ. وَالزَّیْتُوْنَ. وَطُوْرِ سِنِيْنَ. وَھٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ. لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ. (۹۵: ۱-۴) انجیر اور زیتون و طور سینا اور یہ امن والا شہر گواہ ہیں بے شک ہم نے انسان کو بہترین انداز پر پیدا کیا ہے، انجیر اور زیتون کتبِ انبیائے اسرائیل میں روحانیت و نبوت اور بادشاہت سے تعبیر کئے گئے ہیں۔ انجیر سے مراد قوم اسرائیل کی روحانیت اور نبوت ہے اور زیتون اس کی بادشاہت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ طورِ سینا وہ مقام ہے جہاں وہ تعلیم دی گئی۔ جس نے ان دونوں قسم کے ترقی کے معراج پر قومِ اسرائیل کو پہنچایا یہ امن والا شہر (مکہ) اور جو کچھ اس میں خدا کی شریعت دی گئی یہ سب گواہ ہیں اس امر پر کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین انداز پر پیدا کیا ہے۔ یہ تہذیب و ترقی کے بلند سے بلند مقام چڑھ سکتا ہے۔ طورِ سینا پر جو کچھ دیا گیا اس نے ایک غلام اور ذلیل قوم کو اس کی انتہائی ذلت سے اُٹھا کر نبوت اور حکومت کا وارث بنا دیا۔ امن والے شہر میں جو کچھ دیا اس نے ایک مفسد اور ضلال مبین میں غرق قوم کو بدل کر اقوام عالم کی روحانی اور سیاسی امن و سلامتی کا ضامن بنا دیا۔ اس سے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی وفات سے پہلے ایک نہایت ضروری وصیت کی اور فرمایا: عبری الفاظ ملاحظہ ہوں۔ .................... (استثناء باب ۳۳ آیت ۲) جن کا تلفظ یوں ہے: دیو مر یہودہ مسینائی باوزارح مسعیر لاموہو فیو مہتر پاران دٰاتا مربیوث قودِش یمینو ایش واث لا موجن کا تلفظ یوں ہے:
Flag Counter