آغازِ وحی سے ہجرت تک سید ابو الاعلیٰ مودودی یہ مقالہ اپنے عنوان سے بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ نبوت کے ابتدائی ۱۳ برس کی تاریخی جھلک ہے۔ دراصل دعوت و اصلاح کی اسلامی تحریک کے ارتقاء کا ایک مکمل نقشہ بھی پیش کر رہا ہے جسے آج کی زبان میں ’’تاریخِ انسانیت کے ایک عظیم انقلاب‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ دورِ عزیمت و استقلالی تھا جس نے دنیائے انسانیت کے سامنے کٹھن سے کٹھن حالات میں حق پرستی اور پامردی کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور تجدید احیائے دین کی راہوں پر چلنے والوں کے لئے سنگِ میل لگائے ہیں۔ دعوتِ اسلامی کا یہ ابتدائی دور ہمیں بتاتا ہے کہ صحیح تحریک اگرچہ اعلیٰ نصب العین، بلند فکری اور دوسرے تمام نظریات پر علمی برتری کی حامل ہوتی ہے لیکن وہ اپنی جامعیت اور نتیجہ خیزی کی بنا پر فکر و نظر تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کا اصل مقصود فرد و معاشرہ میں حق کی قوتوں کی انگیخت ہوتی ہے۔ جو عملِ خیر کا موجب بنتی ہیں۔ اس میں علم و معرفت کی اہمیت اسی اعتبار سے ہوتی ہے کہ وہ حق و خیر کے راستوں کی نشاندہی اور باطل سے تمیز کا سبب بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کا ان علاقوں میں مبعوث ہونا ضروری نہیں ہوتا جو علم و فکر کی بالاتوی کی وجہ سے سیادت پر فائز ہوں اور نہ ہی انبیاء کی دعوت میں صرف صاحبِ علم و فضل لوگ ہی ملحوظ ہوتے ہیں نیز یہ دورِ محن یہ عقدہ کشائی بھی کرتا ہے کہ انبیاء اگرچہ وحی و عصمت کی بدولت عام انسانوں سے ممتاز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے صرف ہی مطاع قرار پاتے ہیں لیکن تبلیغ و دعوت کے میدانوں میں وہ عام لوگوں ہی کی طرح مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں اور اعلیٰ فطرت انسان کی حیثیت سے ابتلاء و امتحان میں سرفراز نکلتے ہیں۔ اگر نورِ نبوت کے ساتھ ان کی یہ بشریت نظر انداز کر دی جائے تو پھر ان کا دوسروں کے لئے قابل اتباع اور نمونہ ہونے کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا۔ یہ مقالہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مدظلہ العالی کی تحریروں کی تلخیص ہے اور اسے موجودہ شکل میں ادارہ مطالعہ و تحقیق سے مرتب کیا ہے۔ (ادارہ) تاریکیوں میں بھٹکنے والی انسانیت کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے اللہ نے اپنے ایک برگزیدہ بندے کو منتخب فرمایا اور اسے انسانیت کا امام مقرر کیا۔ یہ ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یکایک سونپی گئی اور |