Maktaba Wahhabi

35 - 198
(دیکھو بشارت نوح علیہ السلام ) اور کبھی یوں جواب دیا کہ وہ جب دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا ۔[1] تو اپنا ہتھیار رکھ دے گا (وید) یعنی اس کی فتح خونریزی سے نہ ہو گی بلکہ امن و صلح سے ہو گی اور کبھی اس رنگ میں جہاد کے اعتراض کی تردید کی کہ اس کا آنا خداوند کا آنا ہو گا یعنی اس وقت انصاف و عدل کامل ہو گا کسی پر ظلم نہ ہو گا (حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشن گوئی یوں پوری ہوئی) یہ پیشن گوئی جناب مسیح علیہ السلام کے متعلق نہیں: حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہود اور مسیحی دونوں کے دلوں میں تمنا تھی کہ وہ ان کے دشمنوں کو سزا دے گا مگر نہ تو مسیح علیہ السلام یہود کے خیال کے مطابق آیا اور نہ صدور اولیٰ کے مسیحیوں کی آرزو پوری ہوئی۔ گو اسی خیال سے حضرت مسیح علیہ السلام نے خود فرمایا کہ میں آگ لگانے آیا ہوں۔ مگراس آتشزنی میں ان کی زندگی بھر کچھ کامیابی نہ ہوئی اور مسیحیوں نے بھی مایوس ہو کر درد مندوں کو یوں تسلی دی کہ وہ آسمان پر خدا کے داہنے ہاتھ پر بیٹھ کر لوگوں کی عدالت کرے۔ یہ پیشینگوئی چونکہ مسیح کے حق میں نہ تھی، اس لئے شریعت کی آگ مسیح علیہ السلام کے داہنے ہاتھ میں نہ دی گئی۔ بلکہ مسلمات مسیحی اور خیالات یہود کی رو سے شریعت کی آگ اس کے ہاتھ میں دی گئی۔ کیونکہ مجرم کو اس کا فتویٰ بائیں ہاتھ میں دیا جاتا ہے۔ داہنے ہاتھ میں آتشِ شریعت صرف حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی۔ اس لئے کہ الیاس نبی علیہ السلام نے سچ فرمایا تھا میں تو تمہیں پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں...... پر میرے بعد جو آتا ہے وہ تمہیں آگ سے بپتسمہ دے گا (متی کی انجیل ۱۲:۳) مسیح تو الیاس کے زمانہ میں موجود تھا۔ نیز اس نے بھی پانی سے بپتسمہ دیا۔ لیکن آگ کا بپتسمہ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔ جو لوگ حق کی خاطر آتشِ جنگ میں کودے وہی مسلم کہلائے اور یہی آگ کا بپتسمہ تھا جو مسلمانوں کو دیا گیا۔ پس یہ پیش گوئی ایک عظیم الشان پیش گوئی ہے جو اپنے تمام اجزا کے لحاظ سے صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں پوری ہوئی اور جہاد کرنے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی وجہ سے مماثلت موسیٰ علیہ السلام کو بھی پوری کر گئی۔ وما علینا الا البلاغ المبین
Flag Counter