رحمۃ للعالمین مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ كارنامۂ سيرت، بے رحم تاریخ کی کسوٹی پر ترجمان القرآن میں مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم و مغفور نے سورۂ انبیا کی آیت (106) وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ کے حواشی میں یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کو دنیا کے لئے رحمت قرار دے کر قرآن نے ایک کسوٹی ہمارے حوالے کر دی ہے جس پر اس ظہور کی ساری صداقتیں ہم پرکھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی فرمایا کہ مقدمہ تفسیر کے ایک باب کا موضوع یہی مسئلہ ہے جس میں مذہبی خوش اعتقادی سے الگ رہ کر صرف تاریخ کی بے لاگ اور بے رحم روشنی میں اس حقیقت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مقدمۂ تفسیر 1915ء میں چھپنا شروع ہو گیا تھا اور مارچ 1916ء میں جب مولانا کو کلکتہ سے اخراج کا حکم ملا تو اس کے کم از کم بارہ ابواب ضرور چھپ چکے تھے لیکن اب نہ ان مطبوعہ ابواب کا دنیا میں کوئی وجود ہے نہ اس کے مسودے کا کچھ پتا ہے۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ مقدمۂ تفسیر میں مولانا کے قلم سے جو مقالہ تھا،وہ علم و تحقیق میں کس معیار کا تھا اور زبان و اسلوبِ بیان کے لحاظ سے وہ کس پائے کا ادب پارہ تھا لیکن 14 و 21 جنوری 1951ء کے البلاغ میں مولانا مرحوم کا ایک مقالہ سیرت پر شائع ہوا تھا۔ جس میں مولانا نے اسلام کی رحمتِ عامہ کا ایک سرسری مطالعہ پیش کیا ہے اور مقالے کے آخر میں تحریر فرمایا ہے کہ اس کے بعد اصلی سوال ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ یعنی اس پیدائش نے دنیا کی حقیقی اور عالم گیر مصیبت کے لئے کیا کیا؟ اور انسانیت کی سعادت و ارتقائے فطری کی کیوں کر تکمیل کی؟ اس مبحثِ عظیم کا احاطہ و استقصاء تو ممکن نہیں لیکن چند سرسری اشارات آئندہ نمبر میں ملیں گے۔‘‘ لیکن اس مقالے کا دوسرا حصہ چھپنے کی نوبت نہیں آسکی اور اس طرح ہم اس ’اصلی سوال‘ کے جواب میں مولانا مرحوم کے افکارِ عالیہ کے مطالعہ و استفادہ سے محروم رہ گئے۔ مولانا غلام رسول مہر مرحوم نے ’رسولِ رحمت‘ کے نام سے سیرتِ نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر مولانا کی تمام تحریریں اور تقریریں مرتّب فرما دی ہیں۔ رسولِ رحمت کا باب 97 اور 98 البلاغ کا یہی مقالہ ہے۔ مولانا مہر صاحب نے اپنے ابتدائی نوٹ میں یہ تمام رودادِ الم |