سکھائے تُو نے محکوموں کو آدابِ جہانبانی طاہرؔ شادانی دیا اپنے غلاموں کو شکوہِ قیصری تُو نے کیا شاہوں کو آگاہِ مقامِ بندگی تُو نے سکھائے تُو نے محکوموں کو آداب جہانبانی مرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم بدل ڈالا مزاج خسروی تُو نے تو آیا باغِ عالم کے لئے ابرِ کرم بن کر چمن زارِ محبت کو عطا کی تازگیُو نے زمانے بھر میں چرچا ہے تری دریانوالی کا وہ نعمت کون سی ہے جو زمانے کو نہ دی تُو نے تُو اُترا روح کی گہرائیوں میں نورِ جاں بن کر سیہ کاروں کو دی کردار کی تابندگی تُو نے تری ذاتِ گرامی مصدرِ اخلاق و احساں ہے کہ اپنے دشمنوں پر بھی نگاہِ لُطف کی تُو نے تو ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ہے، رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے دیا انساں کو فطرت کا پیامِ آخری تُو نے تو آیا ظلمتِ شب میں پیام صبح نو لے کر افق سے تا افق پھیلائی حق کی روشنی تُو نے گدائی تیرے در کی فِرّ سلطانی سے بہتر ہے کہ اپنے نام لیواؤں کو دی ہر برتری تُو نے ہے تو خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم ، تو لاج ہے تقویم احسن کی بڑھائی اپنی ضَو سے آب و تابِ زندگی تو نے بھٹکتے پھر رہے تھے جو ظلامِ کفر و باطل عطا ان کو کیا وحدت کا نورِ سرمدی تُو نے ہو اپنے طاہرؔ محزوں پہ اب چشمِ کرم یا رب ہمیشہ کی ہے اہلِ درد کی چارہ گری تو نے |