رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت منصف اور قانون ساز جسٹس بدیع الزمان کیکاؤس جب کسی جج کے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو تو وہ پہلے یہ دیکھتا ہے کہ آیا کسی نافذ شدہ قانون کی بنا پر مقدمے کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی قانون کا اطلاق ہوتا ہو۔ تو وہ قانون پر فیصلہ کر دیتا ہے۔ لیکن اگر قانون اس مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لئے کافی نہ ہو تو پھر جج انصاف کے اصول تلاش کرتا ہے یعنی قانون میں جو خلا ہو اس کو انصاف سے پُر کرتا ہے۔ اور کسی انصاف کے اصول کی بنا پر فیصلہ کر دیتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہلے یہی دیکھتے کہ آیا قرآن کے کسی حکم سے مقدمہ کا فیصلہ ہو سکتا ہے اگر ہو سکتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی بنا پر فیصلہ کرتے۔ اگرچہ ایسا بھی ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حکم کے ذریعے قرآن کے احکام کی تشریح یا تاویل کر دیتے۔ لیکن اگر اس معاملہ کے متعلق قرآن کی کوئی نصّ موجود نہ ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود اس پر حکم صادر فرماتے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود شارع[1] تھے۔ یا جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے میں انصاف ہوتا، اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ چنانچہ جو تشریح یا تاویل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نصِّ قرآن کی کی، یا جو حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صادر فرمایا۔ یا جس انصاف کے اصول کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ کر دیا، وہ ہمارے لئے قانون ہے۔ اسی طرح بجائے کسی مقدمے کے اگر کوئی معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش ہوا جس میں احکام جاری کرنے کی ضرورت تھی۔ تو جیسی صورت مقدمہ کے فیصلہ کی تھی، ایسی ہی صورت اس معاملہ کے فیصلہ کی بھی ہوئی اور اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح، (تاویل) احکام یا نافذ کردہ اصول ہمارے لئے قانون بن گئے۔ یہ ضروری نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں کوئی قانون نافذ کیا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے جو لازمی نتیجہ پیدا ہوا ہو وہ بھی قانون ہے۔ |