ظاہر ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قانون سازی کا موضوع بہت وسیع ہے۔ چند صفحات میں تو یہی ہو سکتا ہے کہ اس میں کے کچھ حصوں پر تبصرہ کر دیا جائے۔ حصوں کا انتخاب میں اس نقطۂ نگاہ سے کروں گا کہ موجودہ حالات میں کس قانون کی طرف توجہ مبذول کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ 1. سب سے پہلے میں اُن مشہور ہدایات کا ذِکر کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو دی تھیں۔ جب ان کو یمن کا حاکم مقرر کیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ ’’کوئی معاملہ پیش ہو گا تو کیسے فیصلہ کرو گے۔‘‘ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ ’’کتاب اللہ کے مطابق ‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا ’’اگر کتاب اللہ میں کوئی حکم موجود نہ ہو؟‘‘ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا ’’تو سنتِ رسول اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔‘‘ سوال ہوا ’’اور اگر اس میں بھی کوئی حکم موجود نہ ہو۔‘‘ جواب تھا ’’تو میں اجتہاد کرں گا۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے۔ اور فرمایا، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں، جس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو ہدایت دی۔‘‘ اس حدیث کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ اجتہاد کی بنیاد ہے۔ لیکن یہ صرف اجتہاد کی بنیاد ہی نہیں اس میں مسلمان اُولی الامر کے متعلق مفصل ہدایت موجود ہے۔ اس حدیث کی رُو سے فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا والیٔ امر اسلام پر قائم رہا؟ اس نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی یا نہیں؟ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہے یا شریعت کے خلاف۔ میری رائے میں اس حدیث سے مندرجہ ذیل نتائج پیدا ہوئے: (الف) کہ والیٔ امر کی نیت کیا ہونی چاہئے۔ جس وقت وہ کوئی حکم صادر کرے۔ یہ لازم ہے کہ اس کی نیت یہ ہو کہ وہ قرآن کا پابند ہے اور پہلے قرآن و سنت سے تلاش کرے کہ اس قضیہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے اور اگر اس کو قرآن و سنت میں صاف حکم نہ ملے۔ تو وہ کوشش کرے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں صراطِ مستقیم دریافت کرے۔ والیٔ امر کے لئے لازم ہے کہ ایسی ہی اس کی نیت ہو۔ کیونکہ اعمال کا خیر و شر نیت سے متعین ہوتا ہے۔ اگر اولی الامر کا ارادہ ہی نہ ہو کہ قرآن و سنت کی پابندی کرے تو اگرچہ محض اتفاق سے اس کا عمل قرآن و سنت کے مطابق ہو جائے تاہم اس کی نافرمانی تو باقی ہی رہے گی۔ جب اللہ کی اطاعت کا ارادہ نہ ہو تو محض اس وجہ سے کوئی عمل درست نہیں ہو پاتا کہ نفسانی خواہشات کی بنا پر جو عمل کیا جا رہا ہے فی الواقع وہی ہے جس کا اللہ نے بھی حکم دیا ہے۔ جس عمل کا محرک اللہ کی اطاعت نہیں بلکہ نفسِ امارّہ ہے، وہ جہاں تک عذاب و ثواب کا تعلق ہے، درست عمل نہیں ہے۔ اگر آپ خیرات کریں اور نیت صاف اس سے کسی انسان کو راضی کر کے اس سے مالی فائدہ اُٹھانے کی ہو۔ تو خیرات، خیرات نہ رہے گی۔ |